Cultural Narcissism- Part 5 (تہذیبی نرگسیت حصہ (5
مبارک حیدر
پاکستان کی افغان پالیسی
پاکستان
کے بااثر یا بااقتدار طبقوں میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف کیے
جانے والے اقدامات کے سلسلے میں تذبذب اور نیم دلی کی ایک وجہ یہ بیان کی
جاتی ہے کہ اِن کے خیال میں افغان حکومت کے موجودہ نیٹو سیٹ اَپ میں بھارت
کی طرف دوستانہ رُجحانات رکھنے والے عناصر غالب ہیں۔ چنانچہ اگر موجودہ سیٹ
اَپ کو طالبان پر فتح حاصل ہوتی ہے تو اس کا فائدہ بھارت کو ہو گا۔ جبکہ
طالبان پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر انہیں ترقی و طاقت
ملے تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔ اس طرزِ فکر کے تین بنیادی مفروضے
ہیں۔
1۔ افغان حکمرانوں کے موجودہ سیٹ اَپ میں بھارت کی حمایت کے رجحانات موجود ہیں لہٰذا یہ پاکستان کا مخالف ہے۔
2۔
طالبان پاکستان کے لئے ہمدردی رکھتے ہیں یا پاکستان کے حامی ہیں، لہٰذا ان
کا افغانستان میں طاقتور ہونا پاکستان کے لئے تقویت کا باعث ہو گا۔
3۔
ہماری حکمت عملی میں بھارت کے ساتھ کشیدگی اور مسابقت کو ہمیشہ فیصلہ کن
اہمیت حاصل رہنی چاہیے، یعنی بھارت کا دوست پاکستان کا مخالف ، بھارت کا
مخالف پاکستان کا دوست، یہ قانون ہے اور اس قانون پر کوئی اختلاف ممکن
نہیں۔
لیکن
کیا یقینی طور پر یہ مفروضے صحیح ہیں؟ کیا پچھلے اکسٹھ برس کی تاریخ نے
ہمارے خیالات کی صداقت یا قوت کو ثابت کیا؟ کیا اِن مفروضوں کے تنقیدی
جائزہ کی کوئی ضرورت ہے، یا انہیں قانونِ فطرت کی طرح اٹل ماننا ضروری ہے؟
کیا اِس نقطۂ نظر کے خالق پاکستانی عوام یا اُن کے نمائندے ہیں جنہوں نے
نسل در نسل اِن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے یا یہ کسی گروہ یا طاقتور
طبقہ نے خاموشی سے نافذ کر دئیے ہیں؟
ضیاء
الحق کی کمان میں دنیا بھر کے جہادی عناصر نے پاکستان کی سرزمین کو تاراج
کر کے افغانستان میں جو جنگ لڑی کیا وہ بالآخر پاکستان کی طاقت بنی یا
تباہی؟ اتنی قربانیاں دینے کے بعد پاکستان کو افغان مجاہدین کے بارے میں یہ
انکشاف ہوا کہ وہ تو بھارت کے حامی نکلے۔ حالانکہ بھارت نے تو اِس جنگ میں
افغانوں کی کوئی خدمت نہ کی۔ بھارت تو اسے امریکہ کی جنگ سمجھتا تھا جس
میں روس کو شکست دینا مقصود تھا اور بھارت کو روس سے نفرت تھی نہ امریکہ سے
محبت۔ یہ دونوں تو ہمارے تشخص کی علامتیں ہیں۔ تب بھی پاکستان کے مقتدر
حلقوں نے اپنی افغان پالیسی کی شکست کی وجوہات پر کوئی خود تنقیدی جائزہ
پیش نہیں کیا نہ آج تک کسی اسمبلی میں اس پر بحث کی گئی۔ پھر ہمارے مردانِ
باکمال (Men at their best) نے مسئلے کا حل یہ پیش کیا کہ مدرسوں سے طالبان
نکالے
No comments:
Post a Comment