س میں کوئی شک نہیں کہ یہ سانحہ ہماری اجتماعی بے حسی اور درشتگی کا ایک
منہ بولتا ثبوت ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدم برداشت اور سختی پورے سماج
کے تاروپود میں سرایت کرچکی ہے اور اس سے چھٹکارا آسانی سے ممکن نہیں۔اپنے
سے غیر متفق اور مختلف نقطہ نظر کو برداشت نہ کرنے کی اس روش کے اجزائے
ترکیبی کا جائزہ بہت ضروری ہے لیکن ساتھ ہی اُتنا ہی غیر اہم بھی کیوں کہ
ہمارے ہاں اس بات کو بھی ناپسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اِن
کی اکثریت ہمیشہ طاقت ور ہوتی ہے اس لیے یہ کام بذات خود خطرات
سے خالی نہیں۔اگر صرف اس واقعے کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو معلوم ہوتا
ہے کہ پنجاب حکومت میں موجود لوگوں کو منہاج القرآن کے سربراہ سے صرف اس
لیے کد ہے کہ وہ اپنی حکومت مخالف مہم کو لمحہ بہ لمحہ تیز کررہے ہیں،اگرچہ
وہ نظام بدلنے کا ایک بہت حد تک ضروری اور کنفیوژن زدہ تصور بھی پیش کرتے
ہیں لیکن چوں کہ وہ اس کام کے لیے مذہبی مبادیات کا سہارا لیتے ہیں اور
مذہبی تعلیم کے لیے تیار کی گئی اپنی تنظیم کو استعمال کرتے ہیں۔اس لیے اِن
کے مسلکی مخالفین بہت زیادہ رنجیدہ ہیں۔طاہر القادری کے بارے میں مخالفانہ
رائے سازی اُن کی مسلکی وابستگی اور اپنی تنظیم و شخصیت کی تعمیر میں
ارادی طور پر شامل کی گئی تقدیس کے باعث ہے۔بظاہر طاہر القادری کی سیاسی
مخالفت ایک مشکل کام ہے کیوں کہ اُنہوں نے سیاسی طور پر اُتنی غلطیاں نہیں
کیں جتنی عام طور پر پاکستانی سیاست میں کی جاتی ہیں۔طاہر القادری کی تمام
تر مخالفت کی وجہ اُن کی مسلکی وابستگی ہے کیوں کہ وہ اپنے سے مختلف مسلک
کے سخت گیر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں ،اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔وہ
برصغیر کی اُلجھی ہوئی مسلکی مخاصمت میں اپنا ایک خاص مقام بنانے میں
کامیاب ہوچکے ہیں اور ایک نہایت زیرک منتظم کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے
ہیں، جو انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوامذہبی تنظیم سازی سے جڑی ہر قسم
کی کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور پھر اس کے عزائم ایسے ہیں کہ وہ سب کچھ
پلٹ دینا چاہتا ہے۔طاہر القادری اس وقت مزید ناقابل برداشت ہوجاتا ہے جب وہ
اکثریت کے تصور عالم کے بالکل اُلٹ تصور پیش کرتا ہے اور مغربی ممالک میں
بھی اس کو سراہا جاتا ہے۔میرے خیال میں اس حوالے سے طاہر القادری کی آخری
اور واضح ترین غلطی کئی سو صفحات پر مشتمل فتوی تھا جو اُنہوں نے خودکش
حملوں کے بارے میں شائع کروایا۔
No comments:
Post a Comment