Cultural Narcissism- Part 14 (تہذیبی نرگسیت حصہ (14
مبارک حیدر
چت بھی میرا پٹ بھی میرا
مریضانہ
نرگسیت کی ایک اور علامت یہ ہے کہ مریض چت بھی میرا پٹ بھی میرا کے اصول
پر عمل کرتا ہے۔ اپنے ارد گرد باصلاحیت شخص سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے
خلاف کردار کشی یا تذلیل و تحقیر کی مہم چلاتا ہے۔ اس عمل میں وہ عام
اخلاقیات کے برعکس اپنی فضیلت اور صلاحیت کا طرح طرح سے بیان کرتا ہے۔ اس
بیان کی نفاست یا کثافت کا انحصار فرد کی تہذیبی اور فکری سطح پر ہے۔ تاہم
یہ واضح ہے کہ فضیلت کا یہ اظہار صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ کبھی اپنی کوتاہی ،
کمزوری کا اعتراف یا اپنے کسی جرم کا اقبال نہیں کرتا۔ لیکن اگر اس کا
حریف اپنی کوتاہی کا اعتراف یا جرم کا اقبال کرے تو یہ اس بات کو اخلاقی
جرأت کے طور پر لائقِ تحسین ہرگز قرار نہیں دیتا بلکہ لپک کر اس اقرارکو
اپنی پاکبازی اور مزید فضیلت کا ثبوت بنا لیتا ہے۔
تہذیبی
نرگسیت میں اس کی صورت اس طرح سے ہے کہ ہم اپنی ثقافت، اپنے مذہب، اپنے
آباؤ اجداد غرضیکہ جس کا بھی تذکرہ چل پڑے، ہر ایک کی فضیلت بیان کرنے میں
کسی احتیاط یا انحصار کو ضروری نہیں سمجھتے۔ آئے دن نئے نئے حضرت اور
مولانا اور پیر اور مرشد پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی تعریف میں ہمیں کوئی دوڑ
کوئی واقعہ افسوسناک نظر نہیں آتا۔ اگر ہم نے دنیا فتح کی ، قوموں کوذمّی
بنایا، غلام رکھے، لونڈیاں رکھیں، اگر ہمارے محترم عرب رہنما آج بھی دنیا
بھر سے غلام اور لونڈیاں خریدتے اور حرم بھرتے ہیں تو ہمیں کسی خفت کا
سامنا نہیں۔ مگر ہم امریکہ، یورپ ، بھارت اور اسرائیل کی عریانی ، بے
حیائی، بدکاری، ظلم، وحشت و بربریت کی مثالیں گنواتے بس نہیں کرتے۔ اگر
امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں چند معصوم قبائلی مارے جائیں تو اس کے
انتقام کے طور پر سینکڑوں بے قصور پاکستانیوں کا قتل اس لئے جائز قرار دے
دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری تہذیبی مظلومیت کا انتقام ہے۔ اس میں پاکستان کے
مظلوم کم مظلوم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے مقابلے میں مجاہد قبائلیوں کا
مقام بالاتر ہے۔ تقدس اور مظلومیت کی طویل داستان گوئی کا اندازہ لگانے کے
لئے صرف چند اقتباسات یعنی دیگ میں سے چند چاول ملاحظہ ہوں (یہ اقتباسات
ڈاکٹر اسرار احمد کے مضمون ’’علامہ اقبال، قائد اعظم اور نظریہ پاکستان‘‘
سے لیے گئے ہیں جو نوائے وقت 23 اکتوبر 2008ء میں شائع ہوا)
No comments:
Post a Comment