Relationship of Religion and Ethics مذہب اور اخلاق کا تعلق
باسل حجازی، نیو ایج اسلام
8اپریل2014
انہوں نے کہا اور ہم نے بھی کہا کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق" "میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں"۔
بات
اگر اخلاق اور مذہب کے آپسی تعلق کی کی جائے کہ آیا اس تعلق میں تضاد ہے
یا ہم آہنگی ہے اور کون اصل اور کون شاخ ہے؟ تو اس ضمن میں کئی مسالک ہیں
موجود ہیں جن میں خاص الخاص کا ذکر کچھ یوں ہے:
1-
ہم آہنگی مگر اصل اخلاق ہیں: یہ بات مندرجہ بالا حدیث سے بھی اخذ ہوتی ہے
جہاں حدیث یہ حقیقت بیان کرتی نظر آتی ہے کہ مذہب اخلاق کی تقویت اور ان کی
تکمیل کے لیے آیا ہے، یہ مسلک زیادہ تر لبرلز کا ہے، وہ اس حقیقت پر زور
دیتے نظر آتے ہیں کہ دراصل اخلاق ہی اصل ہیں اور ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم
اچھے انسان بنیں اور اس ضمن میں ہمارے مذہب کو کوئی اہمیت حاصل نہیں کہ
بالآخر تمام مذاہب کا مقصد انسان کو ایک اچھا انسان بنانا ہی ہے۔
2-
ہم آہنگی مگر اصل مذہب ہے: یہ بات بھی کچھ مذہبی تحریروں اور علمائے دین
کے اقوال سے اخذ کی جاسکتی ہے جیسا کہ آیت ❞وما خلقت الجن والانس الا
لیعبدون❝، یہاں ایمان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ نیک عمل ایمان کو تقویت
بخشتا ہے اور ایک حدیث کے مطابق جو اسلام سے ہٹ کر کوئی دین چاہے گا تو اس
سے قبول نہیں کیا جائے گا یعنی کہ بندہ کتنا ہی نیک اور اخلاقیات سے لبریز
کیوں نہ ہو جب تک وہ مسلمان نہیں ہوگا اس سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا
جس کا مطلب ہے کہ ایمان کے راستے میں مذہب کو اخلاقیات کی ضرورت ہے یعنی
اخلاق اس غرض کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہیں بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں ہیں۔
3-
تضاد: یہ مسلک نٹشے اور ان کے ہمنواؤں کا ہے کہ مذہب اخلاقیات کو ہائی جیک
کرتا ہے اور انسان میں ذات سے اجنبیت کی حالت کو پروان چڑھاتا اور اسے سست
بناتا ہے وغیرہ۔۔ اور چونکہ اخلاقیات کی موجودگی انسانی زندگی اور معاشرے
کے لیے ضروری ہے جبکہ مذہب ضروری نہیں ہے چنانچہ مغرب کے زیادہ تر مفکرین
نے اخلاقیات کو سیکولرائز کرتے ہوئے انہیں بھی مذہب سے الگ کرنے کا مطالبہ
کیا تاکہ ان کی حفاظت کی جاسکے اور ایک ایسے اخلاقی نظام کی تشکیل کی جاسکے
جو مذہب اور غیب پر انحصار نہ کرے بلکہ انسانیت اور انسانی ضمیر اس کی
بنیادیں
No comments:
Post a Comment