Wednesday, April 30, 2014

Life between Grieves صدموں کے درمیان زندگی





مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
29اپریل، 2014
پاکستان میں ایک دلچسپ صورت حال لاحق ہے اور بہت سے برگذیدہ قرار دے دیئے گئے دانش ور اور سازشی عناصر کی دور سے بوسونگھ لینے میں ماہر حضرات آپس میں گتھم گتھا ہیں۔جیو ٹیلی ویژن کے اینکر حامد میر پر حملے کو لے کر نہ صرف ملک میں سیاسی ہیجان طاری ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ صحافت اور ریاست سمیت ریاستی اداروں کے بارے میں ازسر نو تعریف متعین کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔میں بہت زور سے ہنسنا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی بھی سنجیدہ اور معروضیت کا طلبگار نہیں۔جہاں ریاست کی عملداری کے خدوخال واضح نہ ہوں وہاں اکثر اوقات ادارے،افراد اور گروہ ہر قسم کے فیصلے اور اقدامات خود ہی اُٹھا لیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ریاست معدوم ہوجاتی ہے اور طاقت ور ہی ریاست کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ ایک بالکل سمجھ میں آنے والا اور پاکستان میں معمول کا واقعہ ہے کہ ایک مشہور صحافی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر ہم حامد میر کی عظمت کے بیان کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کرلیں تو اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں بہت زیادہ ہوئے ہیں اور نامعلوم مدت تک ہوتے رہنے کے واضح امکانات ہیں۔ سابق وزیر اعظم، فوجی جرنیل،علماء،ڈاکٹر،سائنسدان،بیوروکریٹس غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کامیاب اور مشہور لوگ لاچاری کی حالت میں پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں مارے گئے ہیں۔اقلیتوں کے سینکڑوں افراد کو چند لمحوں میں قتل کردیا گیا لیکن پاکستان کے بظاہر بہت زیادہ آزاد ذرائع ابلاغ پر سوائے معمول کی خبروں کے اِن واقعات کا مزید تذکرہ نہیں ہوا۔اور نہ ہی یہ بحث ہوسکی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔اس قسم کی بحث کے تو ہم کبھی متحمل ہی نہیں ہوسکے کہ اِس قسم کے واقعات کا ماخذ کیا ہے اور ہم ایک سماج کے طور پر کس سمت میں جارہے ہیں؟
 

No comments:

Post a Comment