Monday, February 17, 2014



Islamic Economy During Khilafat-e-Rasheda Part 10 خلافت راشدہ کا اقتصادی جائزہ حصہ 10

خورشید احمد فارق
ترمیمی ضابطہ غنیمت  ، جزیہ و لگان
مصر، شام ، میسور پوٹامیہ ، عراق ، اذربی جان اور فارس میں جہاں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دس سال کے مختصر عرصہ میں اسلام کا سیاسی  و اقتصادی تسلط قائم کیا ، دنیا کی تین تمدن قومیں ۔ عیسائی ، یہودی اور پارسی آباد تھیں چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں شام، مصر اور لبیا کی بزَ نطی عیسائی اور عراق و فارس کی پارسی حکومتیں  فوجی طاقت اور شاہی شان و شوکت میں دنیا کی ساری حکومتوں سے بازی  لے گئی تھیں ۔ ان  حکومتوں  کے تہ در تہ سیاسی اقتدار کے مضبوط قلعوں کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جس فوجی مشین نے مسمار کیا اس کی تشکیل  بنیادی طور پر انہی مالی وسائل سے ہوئی تھی جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانشین  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  بندوبست کر گئے تھے اور جن کی بنیادیں مدنی قرآن کے مجوزہ فراہمی دولت  کے ان تین اصولوں پر استوار ہوئی تھیں : مال غنیمت (2) جزیہ اور (3) زکات لیکن یہ مالی وسائل اتنے وسیع نہیں تھے کہ ان کی مدد سے دنیا کی مضبوط ترین قوموں کے قصر حکومت  گرادئے جاتے ۔
مالی وسائل بڑھا کر اپنی فوجی مشین کو زیادہ کارگر بنانے کے لئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدنی قرآن کے مجوزہ اصول اور رسول اللہ کے عمل میں اہم تصرفات کئے جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔ مدنی قرآن نے ہارے ہوئے  دشمن  کی منقولہ اور غیر منقولہ املاک کو فاتح مسلمانوں  کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے یعنی جو مال، جائداد یا آراضی مسلمان غازی لڑکر حاصل کریں اس کا 4/5 حصہ ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور باقی پانچواں اِن پانچ مدوں میں صرف کیا جائے جن کامدنی آیت میں ذکر ہے: واعلموا أنماغنِمتم من شیٔ فإٔن للہ خمُسہ و للرسول ولذوی القربیٰ والیتا میٰ والمساکین و ابن السبیل (انفال) ۔7؁ ھ میں رسول اللہ نے یہودی بستی  وادی القری بزو رشمشیر فتح کی تو اسی آیت  کے بموجب اس کا 4/5 محاہدوں  میں بانٹا اور باقی یعنی پانچواں آیت کی تصریح کردہ مدوں کے لئے اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ 14؁ ھ یا 15 ؁ ھ میں فاروقی فوجوں  نے سر حدِ عراق پر بمقام قادسیہّ ایک عظیم الشان فتح حاصل کی جس نے فارسی حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور اس کی قسمت پر تباہی کی مہر ثبت کردی ۔ بہمت سی مزروعہ آراضی کی نہروں سے آب پاشی  ہوتی تھی فاتحین  کے قبضہ  میں آئی تو ان کی تیس ہزار سے زائد فوج نے مطالبہ کیا کہ وادی القری کی طرح اس طویل و عریض  اراضی اور اس میں واقع قصبو ں اور شہروں نیز وہاں  کے باشندوں  کو ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے ۔ اس مطالبہ کے محرک  وہ بہت  سے بدری  صحابی تھے جنہوں نے جنگ قادِسیّہ میں شرکت کی تھی اور جو تقسیم وادی القریٰ کے واقعہ  سے واقف تھے ۔ کمانڈران چیف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مطالبہ بجا معلوم ہوا لیکن سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے قطعۂ ارض  ، اس کے دریاؤں  نہروں، زیر آب زمینوں ، تالابوں  اور ٹیلوں کی تقسیم  انہیں اپنے  بس سے باہر نظر آئی اور انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس معاملہ  میں خلیفہ  سے رجوع کیا جائے ۔ آراضی وغیرہ کی مساویانہ تقسیم میں عمر

No comments:

Post a Comment