Terrorist Attack On India’s
Maulana Usaidul-Haq Qadri In Iraq عراق میں مولانا اسید الحق عاصم
القادری پر دہشت گردانہ حملہ اور مسلم ممالک میں صوفی علماء کا قتل عام:
ایک فکرانگیز تجزیہ
غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
07 مارچ 2014
براہ
راست موضوع سے متعلق گفتگو کرنے سے پہلے میں انتہاء پسندوں کے ہاتھوں اہل
تصوف علماء کے درد ناک قتل کے دو شرمناک واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا:
(1)
مفتی سرفراز احمد نعیمی (علیہ الرحمۃ) پاکستان کے ایک صوفی مسلک عالم دین
تھے جنہیں اعتدال پسندانہ اسلامی نظریات کی حمایت اور پاکستان میں دہشت
گردانہ سرگرمیوں کی زبردست مخالفت کے لیے جانا جاتا تھا۔ 12 جون 2009 میں
انہیں اس وقت ایک خود کش بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا جب وہ پاکستان کے
شہر لاہور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کر رہے تھے۔ انہیں اس خود کش
بم حملے کا نشانہ بنائے جانے سے قبل انہوں نے تحریک طالبان کے دہشت پسند
نظریہ سازوں اور ان کی سرگرمیوں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
(2)
صوفی نقطہء نظر کے حامل عالمی سطح کے ایک عظیم عالم دین شیخ رمضان البوطی
جنہیں عام طور پر ‘‘معتدل اسلامی اسکالر’’ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ انہوں
نے اپنی بے لاگ اور زبردست تحریروں اور مذہبی خطابات کے ذریعہ اسلامی
مسلمات کی خود ساختہ سلفی تشریحات کو کھلے طور پر مسترد کیا تھا۔ سلفیوں کی
فکری انتہاء پسندی اور دور جدید میں اس کی تباہ کاریوں کی وضاحت کرتے ہوئے
سلفی آئیڈیولوجی کی تردید میں انہوں نے بر وقت انتہائی اہمیت کی حامل ایک
کتاب ‘‘As-Salaf was a blessed epoch, not a school of thought’’ (السلف
ایک ایک مبارک عہد تھا، نہ کہ کوئی مکتب فکر) تصنیف کی ۔ انہوں نے مختلف
مسلم ممالک میں سرگرم عمل مذہبی انتہاء پسندوں کی عسکریت پسندانہ اور سیاسی
نظریات اور متشددانہ سرگرمیوں کی نظریاتی طور پر زبر دست تردید کی تھی،
جیسا کہ ان کی ایک کتاب ‘‘الجھاد في الإسلام’’ (1993) سے عیاں ہے۔ انہوں نے
زندگی بھر احسان وسلوک اور تصوف و روحانیت پر مبنی اسلامی معتقدات کی عصری
انداز میں ترسیل و تبلیغ کی۔ صوفی فکرومزاج کے حامل اس عبقری عالم دین کو
سلفی دہشت گردوں اس وقت خود کش حملے سے اڑایا جب وہ اپنے شاگردوں کو شام کے
شہر دمشق کے مرکزی ضلع مزارا میں واقع مسجد جامع الایمان میں ایک مذہبی
وروحانی درس دے رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment