Is Elimination of Terrorism Possible? (Part 1) کیا دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ قسط اول
مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
11مارچ، 2014
نہایت
شکستہ سڑک پر تارکول کی تہہ چڑھادینا ایک ایسا عمل ہے جو کچھ عرصے تک سڑک
کی ہمواری کا تاثر دیتا رہتا ہے لیکن باریک تہہ دیرپا ہمواری کی ضمانت نہیں
دے سکتی، ایسی ہی صورت حال اس وقت پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی
کے معاملے میں موجود ہے۔منتخب حکومت اور اس کی قیادت اس معاملے میں لیپا
پوتی کے تاثر سے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جس کی لاتعداد وجوہات
ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثال کے طور پرپاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ
نواز شدید نوعیت کے تذبذب کا شکار ہے جو اس کے بنیادی اجزائے ترکیبی کی
پیداوار ہے۔
پرانے
مسلم لیگی جنہوں ضیاء دور میں سیاسی تربیت اور مدد حاصل کی وہ پاکستان کی
روایتی فوج سے قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں اور پاکستان کے تصور دفاع اور
تصور حب الوطنی کے حوالے سے اِ ن میں اور اجتماعی فوجی سوچ میں کہیں فرق
نظر نہیں آتا۔دوسری طرف ایک ایسی بڑی تعداد جو مشرف دور میں مسلم لیگ نواز
میں شامل ہوئی، اس کے تصورات صرف رد مشرف تصورات ہی نہیں بلکہ فوج کے
اجتماعی کردار کے بارے میں بھی تحفظات سے لیس ہیں۔اس کی بنیادی وجہ مشرف
دور کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں قومی سطح پر مرتب کیا جانے والا
قومی بیانیہ ہے، جس کے مطابق پاکستان کی فوج نے مشرف کی قیادت میں نہ صرف
پاکستان کے حقیقی مفادات کا سودا کیا بلکہ اسلامی مجاہدین(پاک افغان سرحد
کے آر پار اور کشمیر میں برسر پیکار)کو امریکہ و نیٹوافواج سمیت ملکی
سیکورٹی اداروں کی مدد سے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس قومی بیانیے کے
اجزائے ترکیبی پر بحث کو ابھی التواء میں رکھتے ہوئے ہم موجودہ صورت حال
میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کا احاطہ کریں گے۔
اس
میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ
کی اپنی صفوں میں شدید ترین اختلافات موجود ہیں اور ایسے لوگوں کی آواز
توانا ہورہی ہے جو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کو نہ صرف سیاسی حکومت
بلکہ ریاست کے لیے خطرناک تصور کرتے ہیں۔اس کی وجہ مسلم لیگ کے اپنے دامن
میں موجود وہ درجنوں ارکان اسمبلی ہیں جو بلواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان کی
متشدد مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں سے تمسک رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment