Sunday, March 23, 2014

Is Elimination of Terrorism Possible? (Concluding Part) کیا دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ آخری قسط





مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
22مارچ،  2014
سب سے زیادہ قابل تشویش امر یہ ہے کہ ریاست مذہب و مسلک کے نام پر تشدد کی طرف مائل لوگوں سے بھرنے لگی ہے جو ریاستی نظم ونسق اور سماجی رہن سہن سے نالاں ہیں اوراِنہیں اپنے اپنے متشدد عقائد کے مطابق ڈھالنے کی فکر میں ہیں۔مذہب و مسلک کے نام پر وجود میں آنے والی تنظیمیں طاقت حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے کارکنوں کو زندگی گزارنے کے نئے ڈھنگ سکھانے میں جتی ہوئی ہیں، جو روایتی سماجی تناظر میں خاصے مختلف اور اکثر اوقات متضاد زاویوں کے حامل ہیں۔مثال کے طور پر تنظیمی طور پر منسلک افراد کے لباس سے لے کر گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ و القابات تک میں ایک بہت واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔
سماجی رویوں اور شناختوں میں بتدریج تبدیلیوں کو کہیں بھی بُرا نہیں سمجھا جاتا لیکن ایسی تبدیلیاں جو الگ اور متشدد شناخت پر مُصر ہوں اُن کو نظر انداز کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔الگ اور تشدد کی طرف مائل شناخت کے حوالے سے پاکستانی سماج کا گہرا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تیزی کے ساتھ اجتماعی طور پر ایک ایسی ناگزیر تبدیلی رونما ہوئی ہے جس کے زیادہ تر خدوخال عوامی سطح پر باہم کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔جیسے برصغیر پاک و ہند میں یہ تصور مشکل تھا کہ تمام مسلم مسالک کے مشترکہ طور پر مقدس ترین قرار دئیے جانے والے اللہ کے آخری نبیﷺ کے یوم ولادت پر مسلمان ہی دوسرے مسلمانوں پر مہلک حملے کرکے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔آج اس قسم کے اجتماعات حفاظتی بندوبست کے بغیر منعقد کرنا ممکن نہیں رہا۔یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی ایک قدیم اور علمی روایت مذہبی موضوعات و عقائد پر مناظرہ، موافق و متخالف دلائل و برہان سے آگے بڑھ کر ایک باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور کئی مقامی سطح کے فسادات و کشیدگی کے امکانات کا باعث بنتا ہے۔
اس فوری اور متشدد روایت سے آگہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اب بعض مسالک کے پُرجوش خطیب و مقرر مذہبی جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے اسٹیج پر اپنے ہاتھ میں تیز دھار اور چمکدار ٹوکے لے کر آتے ہیں ، ایک معروف عالم دین کو اپنے خطاب میں ٹوکہ بازی کے باعث’’ٹوکے والی سرکار‘‘ یا مولوی ٹوکہ کہا جاتا ہے اور اِن کے زبردست خطبات کو سی ڈیز اور یو ٹیوب پر آن لائن دیکھا جاسکتا ہے جس میں وہ ٹوکہ لہراتے ہوئے مخالف مسالک کے دلائل کو کاٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اُن کے دلائل میں اصل شدت اُن کے مسلح پن سے در آتی ہے اورکوئی سیکورٹی ادارہ اُنہیں روک دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
عام طور پر دانش ورانہ دعوی جات اس نوع کی دلیل کے ساتھ سامنے آتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے مظاہر بیرونی طاقتوں سے منسلک ہیں اِس لیے جب تک بیرونی دنیا پاکستان کے بارے میں اپنے تصورات کو تبدیل نہیں کرلیتی یا پاکستانی حکومتیں ایسی بیرونی مداخلتوں کا مداوا نہیں کر پاتیں، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ہم بہت زیادہ طاقت بیرونی مفروضہ مداخلتوں کے خدوخال وضح کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور پھر اس قدر نقاہت کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اندرونی طور پر اُبلنے والی انتہا پسندی کو دیکھ نہیں پاتے۔ہم یہاں تک بصری معذوری کا شکار ہیں کہ ملک کے ہر بڑے شہر میں کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والی مسلح تنظیموں کی طاقت اور دھونس کو بھی نہیں دیکھ پاتے اور نہ ہی ہم خاموشی سے آگے بڑھنے والی اس روش کا نظارہ کرسکتے ہیں جو آج ہمارے درودیوار پھاند کر ہمارے لہجوں تک میں در آئی ہے۔
ہمارے طباعتی ادارے ایسے مواد کی دھڑا دھڑاشاعت میں مصروف ہیں جس کی مدد سے اقلیتی مسالک کو بالکل تنہا کرکے شست باندھی جاسکتی ہے لیکن اس کے بارے میں کہیں کوئی متفکر نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کسی موجود قانون پر عمل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر لاہور کے اردو بازار میں موجود ڈیڑھ سو سے زائد چھوٹے چھوٹے پبلشنگ ہاوس ہر سال ہزاروں ایسی کتب اور رسائل شائع کرتے ہیں جو اقلیتی مسالک کی تکفیر پر مبنی ہوتی ہیں۔ہماری بالادست خفیہ ایجنسیاں ہزاروں ایسے گروپوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں جو روزانہ بڑے شہروں کی مارکیٹوں اور تجارتی مراکز کا دورہ کرتے ہیں جہاں سے وہ اپنی اپنی فرقہ پرست جماعتوں کے لیے اسلحہ اور دیگر ضروری سازوسامان خریدنے کے لیے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں۔آج تک کسی ایسے گروہ کے بارے میں کسی قسم کی معلومات ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے نہیں آسکیں اور نہ ہی کسی فرقہ پرست جماعت کو دوسرے لوگوں کو قتل کرنے کے لیے درکار فنڈز جمع کرنے سے روکا جاسکا ہے۔
ملک میں موجود مذہبی مدارس کا آڈٹ یا قانونی طور پر کسی قسم کا محاسبہ تو دور کی بات حکومتیں مدارس کی تعداد کے بارے میں کچھ کہنے سے ڈرتی ہے کہ مذہبی جماعتیں اس حوالے سے اس قدر حساسیت کا شکار ہیں کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔سوائے لال مسجد حادثے کے ہمارے پاس کوئی کوائف نہیں کہ پاکستان کے ہزاروں مدارس کی صورت حال کیا ہے۔ چوں کہ لال مسجد کا واقعہ ایک دوسری نوعیت اختیار کرگیا اس لیے اس کے بارے میں عمومی دلچسپی بڑھ گئی اور اس سے جڑی معلومات عام ہوگئیں لیکن پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سرگرم عمل ہزاروں مدارس کے بارے میں ابہام پوری طرح موجود ہے۔پچھلے دنوں کراچی کے سب سے قدیمی اور بڑے مدرسے بنوریہ میں بعض حساس اداروں کی طرف سے مداخلت کا ایک چھوٹا سا واقعہ رونما ہوا تو طوفان کھڑا کردیا گیا اور بڑے عہدیداروں کو باقاعدہ معافی مانگنا پڑی کہ سرکاری اہل کاروں نے مدرسے کی حدود میں داخل ہوکر غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اُن کے ماتحت محکمہ داخلہ کی وزارتیں اس حوالے سے معذور ہیں اور اُن کے پاس کوئی معلومات یا کوائف نہیں کہ اِن مدارس میں کس قسم کے تصورات کے حامل افراد تیار کیے جارہے ہیں، نہ ہی حکومتیں یہ جانتی ہیں کہ اِن مدارس کے مالیاتی روابط کہاں کہاں قائم ہیں۔
تمام حالات و کوائف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست اپنے قانونی و آئینی طور پر تسلیم شدہ بالادستی کے تصور سے انحراف کررہی ہے اور ملک میں انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ہرسال سینکڑوں افراد فرقہ وارانہ قتل وغارت کی نذر ہوجاتے ہیں لیکن فرقہ پرست تنظیموں کے لیے میدان بالکل صاف ہے اور کہیں بھی سیکورٹی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ مقامی لشکر اور مسلح گروہ پوری قوت کے ساتھ اپنی اہلیت اور طاقت میں اضافہ کررہے ہیں جب کہ ریاست اِن کے وجود کو تزویراتی اثاثہ قرار دیتی ہے۔پاکستان کی فوج اِن خطرناک گروہوں کو سامنے رکھ کر ریاست کو اندرونی خطرات سے دوچار قرار دیتی ہے۔جب کہ متذبذب دانش ور اور زبردست علمائے کرام اِن منہ زور گروہوں کو جہاد اسلامی کے تصور سے جوڑ کر کسی قسم کی جوابدہی سے مبرا قرار دے دیتے ہیں۔
یہاں پر اگر ہم ایک سوال کو فاضل دانشوران کے جواب کے لیے چھوڑ دیں تو کوئی مضائقہ نہیں، کیا ہم لشکر طیبہ،جیش محمد،لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ، سپاہ محمد،مختار فورس، سنی فورس اور اِن جیسی کئی دوسری مسلح تنظیموں کی ایک خودمختار ریاست میں موجودگی کو ریاست اور سماج کے لیے سودمند سمجھتے ہیں؟ اگر ہم ایسے گروہوں کے ساتھ رہنے پر رضامند ہیں اور اِن کے افعال کو اسلام ، پاکستان اور اس کے کثیر المسالک معاشرے کے لیے مضر سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اجتماعی سوچ میں ترمیم کرنا ہوگی تاکہ ریاست کو انہدام سے بچایا جائے۔اگر ہم بحثیت مجموعی اس کے لیے تیار نہیں تو پھر اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جلد ہی ایک ہمہ گیر کشیدگی ہمیں گھیر لے گی،ہم حتی المقدور مسلح اور ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر و تکذیب کے تمام تر اوزاروں سے لیس ہیں۔مسالک کی بنیاد پر ہمارے ہاں صرف رہائشی آبادیاں ہی وجود میں نہیں آئیں بلکہ ہر نوعیت کی علیحدگی اور کشیدگی کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’  سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔  تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے  اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL for Part 2:
URL for this article:

No comments:

Post a Comment