Thursday, March 13, 2014

Dialogue and Dawah مکالمہ اور دعوت





مولانا وحیدالدین خان
04 فروری 2014
مکالمہ کا اسلام سے ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔اور دعوتی مشن خود میں ایک مکالمہ ہے۔ دعوتی مشن میں لوگوں کے ساتھ ربط پیدا کرنے اور ان کے ساتھ گفتگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دعوتی مشن لوگوں پر دوسروں کی فکر کو ضروری قرار دیتا ہے۔ دعوتی سرگرمیوں کے بغیر آپ کا وجود تنہاہے۔ لیکن جب آپ دعوت کو اپنا ایک مشن بنا لیتے ہیں تو آپ بے شمار لوگوں کے ساتھ ربط میں آجاتے ہیں اور جب بہت سارے لوگ ایک ساتھ جمع ہوں تو پھر فطری طور پر مکالمے کا آغاز ہوتا ہے۔
قرآن نے دعوت کے لیے ایک انتہائی عملی منہج فراہم کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم فریقین کے درمیان مشترکہ اقدار تلاش کریں اور اسے ہی گفتگو اور مکالمہ کی ابتدائی بنیاد بنائیں، اس اصول کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ‘‘آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں’’۔ (3:64)
اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں ہمیں مکالمہ کی ایک عملی شکل کا بھی پتہ ملتا ہے۔ اس مکالمہ کا انعقاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا گیا تھا۔ مسجد نبوی میں منعقد ہونے والے اس مکالمہ میں تین مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان تینوں مذہبی نمائندوں کا تعلق بالترتیب اسلام، یہودیت اور عیسائیت سے تھا، دراصل یہ ایک سہ رخی مکالمہ تھا۔
 

No comments:

Post a Comment