Fatwas Are Opinions, Not Laws فتویٰ مفتی کی اپنی رائے ہے کوئی قانون نہیں
مولانا وحیدالدین خان
14 مارچ 2014
25
فروری کو سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ مفتیوں کے ذریعہ جاری کئے گئے
فتووں کا قانون میں کوئی جواز نہیں ہے۔ دو رکنی بنچ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ
‘‘ہر وہ چیز جس کی قانون میں کوئی جگہ نہیں ہے لوگوں کا اس پر توجہ کرنا
بھی ضروری نہیں ہے۔ مفتی کسی بھی مسئلے میں اپنا فتوی جاری کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ اسے ایک مسئلہ پر ایک عام انسان کے ذاتی نقطہ نظر کے مساوی سمجھا
جائے گا۔ "عدالت کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہی ہے۔
شریعت
نے فتوی اور قضاء (حکم ، فیصلہ) کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچا ہے۔ فتویٰ
اس رائے کو کہا جاتا ہے جو کسی ذاتی معاملہ پر کوئی شخص کسی مفتی سے پوچھے
اور مفتی قرآن و حدیث کی روشنی میں درپیش مسئلہ کے حوالہ سے اپنی رائے پیش
کرے۔ فتوی کا لغوی معنیٰ رائے ہے اور فتویٰ قانوناً کسی حکم کو واجب نہیں
کرتا ہے۔ یہ صرف متعلقہ شخص پر ہی قابل نفاذ ہے اور صرف وہی اس بات کا
فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اس کو قبول کرے گا یا مسترد کرے گا۔ جب کہ قضاء کا
مطلب عدالتی فیصلہ ہے۔ کسی بھی مفتی کو قضاء (فیصلہ) صادر کرنے کی اجازت
نہیں ہے، بلکہ قضاء دینے اور اسے ہر شخص پر نافذ کرنے کا اختیار صرف اس
عدالت کو ہے جسے ریاستی حکومت نے اس کا مجاز بنایا ہو۔
No comments:
Post a Comment