The Basis of Inter-Religious Dialogue بین المذاہب مکالمہ کی بنیادیں
خالد ظہیر
18 فروری 2014
آج
کل بین المذاہب مکالمہ کے تعلق سے بہت ساری باتیں کی جارہی ہیں۔ بلاشبہ
بین المذاہب مکالمہ کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں اس
بنیادی مسئلہ کے تعلق سے ایک واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم
بات یہ ہے کہ: بین المذاہب مکالمہ کی صحیح بنیاد کیا ہونی چاہیے؟
میرا
یہ ماننا ہے کہ بین المذاہب مکالمہ کی بنیاد اس بات پر اظہار رائے ہونی
چاہیے کہ زندگی کے سوالات کا مختلف مذہبی روایتوں نے کس طرح جواب دیا ہے:
ہمارا خالق اور مربی کون ہے اور ہم اس کی اطاعت کیسے کر سکتے ہیں؟ مصیبت کے
اوقات میں ہمیں کس کی اور کس طرح مدد تلاش کرنی چاہیے؟ زندگی میں اتنی
ناانصافیاں کیوں ہیں، خالق کائنات انہیں ختم کیوں نہیں کر دیتا؟ اخلاقی
اصولوں کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب کسی کا استحصال کر دیا جائے تو اس
کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ ہماری موت کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
وغیرہ وغیرہ
کیوں
کہ ان سوالات کا تعلق تمام انسانوں سے ہے اور چونکہ تقریباً تمام مذاہب
میں ان سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں اور جب بین المذاہب مکالمہ کا انعقاد
کیا جائے گا تو تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے اس قسم کے سوالات کے
جوابات جاننے کا موقع ملے گا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ
عظیم اقدار سیکھنے کا ایک تجربہ ہو سکتا ہے۔
ان
سب کے علاوہ بین المذاہب مکالمہ معاشرے میں اجتماعی طور پر امن اور ہم
آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے ۔ بین المذاہب مکالمہ مختلف مذاہب کے
ماننے والوں کے درمیان امن و ہم آہنگی اور دوستانہ سماجی تعلقات ہموار کرنے
کا موقع ہے، جس سے تمام لوگ ایک دوسرے کے نظریات کو بہتر طریقے سے سمجھنے
کے قابل ہوں گے۔ بین المذاہب مکالمہ سے خاص طور پر مسلمانوں کو زیاد
No comments:
Post a Comment