Islamic Economy During Khilafat-e-Rasheda (Part 20) خلافت راشدہ کا اقتصادی جائزہ حصہ 20
خورشید احمد فارق
عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مالی حالت
عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کاتعلق قریش کے مشہور خاندان بنو اُمیّہ (عبد شمس) سے
تھا ۔ ان کی ولادت ایک ایسے گھر میں ہوئی تھی جو دولت سے مالا مال تھا۔ ان
کے والد عَفّان خوش حال تاجر تھے ۔ عَفّان کے تین بچے تھے، ایک عثمان غنی
اور دو لڑکیاں ۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ وجیہہ و خوش رو آدی تھے۔ میانہ قد
، گندمی رنگ چوڑا سینہ، بری داڑھی ، سر پر گھنے بال ، با مروّت ، صلح جو
مستعد اور باشعور ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو لڑکیاں ان کو
بیاہی تھیں ، تجارتی گروں سے خوب واقف تھے ۔ ایک خبر ہے کہ ہجرت کر کے جب
وہ مدینہ آئے تو ان کے پاس صرف ساڑھے تین ہزار روپے ( سات ہزار درہم) تھے
لیکن جلد ہی انہوں نے کاروبار میں غیر معمولی ترقی کرلی ۔ وہ تجارتی قافلے
حَبشہ ، یمن اور شام بھیجا کرتے تھے ۔ نفع میں شرکت کر کے تجارت کے لئے
روپیہ قرض دتیے ، غلاموں سے تجارت کراتے اور زر مخلصی لے کر آزاد کرتے،
سستے داموں جائدادیں خریدتے اور خوب منافع لے کر بیچتے ۔ بڑی اُجلی او
رنکھری زندگی بسر کرتے تھے ۔
عثمان
غنی رضی اللہ عنہ نے نو عقد کئے ۔ چھ ہجرت سے پہلے او ر تین ہجرت کے بعد،
ان کی ایک اُم وَلدبھی بتائی گئی ہیں بچے سترہ اور بقول بعض انیس تھے ، نو
لڑکے اور آٹھ لڑکیاں 2؎ ، بعض راوی لڑکے دس بتاتے ہیں اور لڑکیاں نو 1؎ ۔
ہجرت سے پہلے کی چھ بیویوں میں سے صرف تین نے ہجرت کی تھی۔ ان میں سے ایک
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑکی رُقیہ تھیں ۔ رُقیہ کا 2 ھ میں
بعارضیہ چیچک انتقال ہوگیا ۔ باقی دو مہاجر بیویاں عثمان غنی کی وفات تک
ان کے ساتھ تھیں ۔ عثمان غنی کی صورت ، سیرت اور دولت مندی سے متاثر ہوکر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیّہ کے بعد اپنی دوسری لڑکی ام کلثوم
رضی اللہ عنہ کی بھی ان سے شادی کردی اور شادی کے موقع پر کہا کہ اگر میری
دس لڑکیاں ہوتیں تو ان سب کی ( موت کی صورت میں یکے بعد دیگرے) تم سے شادی
کردیتا 2؎ ۔ ام کلثوم کا 9 ھ میں انتقال ہوگیا ۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ
ایسی نکھری ،اجلی اور پرُ آرام زندگی بسر کرتے اور اپنے بال بچوں کو اتنی
اچھی طرح رکھتے کہ بڑے آدمی ان سے ازدواجی رشتہ کے خواہش مند رہتے تھے ۔
رقیّہ رضی اللہ عنہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا انہوں نے کتنا مہر باندھا
؟ اس سوال کاجواب دینے سے ہم قاصر ہیں۔
No comments:
Post a Comment