Why Criticism Of Religion مذہب پر تنقید کیوں؟
باسل حجازی، نیو ایج اسلام
19مئی، 2014
مولویانِ
اسلام کا کہنا ہے کہ اصلِ مذہب پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ یہ نہ
صرف وحی ہے بلکہ غیب اور حکمِ الہی بھی ہے، مزید برآں مذہب پر تنقید لوگوں
کے ایمان متزلزل کرنے کا باعث بنے گی اور الحاد ولا ادریت کے دروازے کھول
دے گی اور ہر چیز جائز ہوجائے گی لہذا تنقید کا دائرہ کار صرف چند مخصوص
مذہبی شخصیات تک محدود رہنا چاہیے اور مذہب کو بدعتوں سے پاک کیا جانا
چاہیے نا کہ اصل مذہب پر تنقید کی جائے۔
تاہم اس باب میں کچھ نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1-
در حقیقت مولویانِ اسلام نے اصلِ مذہب پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہیں
اٹھائے رکھی، بات فقط اتنی ہے کہ یہ تنقید اپنے مذہب پر نہیں بلکہ دوسروں
کے مذہب پر تھی، اسلام پسندوں کی کتابیں، رسائل وجرائد حتی کہ ٹی وی چینل
بھی عیسائیت اور دیگر غیر مسلموں کے مذاہب پر تنقید سے بھرے پڑے ہیں، مزید
یہ کہ اہلِ سنت اہل تشیع کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں اور اہلِ تشیع سنیوں
کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ آپ کے لیے وہ چیز جائز
کیوں ہے جو دوسروں کے لیے جائز نہیں؟
2-
تنقید کا مقصد مذہب کو تباہ کرنا نہیں ہوتا جیسا کہ شیوخِ اسلام سمجھتے
ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ابھی تک تنقید کا پرانا تصور جاگزیں ہے یا جیسا
کہ وہ دوسرے مذاہب ومسالک کے حوالے سے کرتے ہیں، بلکہ یہاں تنقید سے مراد
جدید کانٹی تنقید ہے جس میں مذہب کے کمزور اور طاقتور پہلو اجاگر کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں کیا چیز نقصان دہ ہے اور کیا
چیز مفید ہے اور وحی کی حقیقت کیا ہے، اور اللہ انسان سے کیا چاہتا ہے، اور
بنیادی طور پر کیا اللہ موجود بھی ہے یا نہیں، اور کیا وہ انسانی صفات کا
حامل ہے، اور کیا اس نے کچھ انسانوں سے بات کی اور ان کے ہاتھوں دوسرے
انسانوں کے لیے کوئی پیغام بھیجا وغیرہ وغیرہ؟؟ جدیدیت میں تنقید سے یہی
مراد ہے، اور کوئی اس طرح کی تنقید سے منع نہیں کرتا اور نا ہی کرنا چاہیے
کیونکہ قرآن اور علمائے اسلام نے ماضی میں ایسے مسائل سے بحث کی ہے لہذا یہ
کوئی نئی بات نہیں جس سے مولویانِ اسلام کی نیندیں اڑ جائیں اور وہ لوگوں
کے خون کے پیاسے ہوجائیں۔
No comments:
Post a Comment