Cultural Narcissism- Part 2 (تہذیبی نرگسیت حصہ (2
مبارک حیدر
تہذیبی نرگسیت
بم
دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے تباہی اور قتل عام اس تحریک کا حصہ ہے
جو پچھلی تین دہائیوں کے دوران نشوو نما پاتی رہی ہے، اُس فکری تحریک کی
عملی شکل ہے جسے اس کے مخالف دہشت گردی کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے اس خیال
کااظہارکیا جارہا تھا کہ سیاسی عمل کی بحالی سے دہشت گردی کا عمل کمزور پڑ
جائے گا۔شاید وہ تحریک جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے اس کی قیادت بھی اس
’’جمہوری چال‘‘ کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کرتی۔
لہٰذا
بروقت اقدام کے ذریعے قائدین تحریک نے سیاسی عمل کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔
تجزیہ کی نظر سے دیکھا جائے تو اب یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ملک میں
سیاسی عمل سے جو فضا قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کی اجازت نہیں دی
جائے گی یعنی جو قدم 27 دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اٹھایا گیا تھا، ویسے
ہی اقدام بار بار اٹھائے جائیں گے لیکن اس کا نشانہ ایک مخصوص فریق
ہوگا،سبھی نہیں۔مخصوص فریق وہی ہے جس کے نمائندوں میں محترمہ بے نظیر شہید
بھی تھیں۔ اس فریق میں سب وہ قوتیں شامل ہیں جو اس عالمی تحریک اسلام سے
خائف ہیں۔ یہ قابل غور ہے کہ اس قتل عام اور محترمہ کی شہادت پر احتجاج
اُنھی ممالک کی حکومتوں نے کیا جو خود اس تحریک کانشانہ بن رہے ہیں یا بننے
والے ہیں۔ یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت، چین، انڈونیشیا، افغانستان
اورمصر کی حکومتیں۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جنھیں اس تحریک سے شدید اختلاف ہے
اور شاید خوف بھی۔ یہ تحریک کیا ہے ؟ہم سب جانتے ہیں اگرچہ اس کا کھلے
بندوں اقرار کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں،
سیاستدانوں، دانشوروں، تاجر طبقوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ
پاکستان کی مقتدرہ کے کئی عناصر اس کے حامی ہیں۔صرف کھلم کھلا اظہار یکجہتی
کرنے یعنی ریکارڈ پر آنے سے گریز کیا جاتا ہے۔کیونکہ حکومت کا ایک عنصر جو
عالمی رائے کے مطابق حکمت عملی پر گامزن ہے ، ابھی کسی حد تک موثر ہے۔یہ
غلبہ اسلام کی تحریک ہے جس سے ملک کے تمام مسلمان اصولی طور پر کسی نہ کسی
حد تک متفق ہیں،اور اس کے مقاصد واضح ہیں، یعنی مرحلہ وار ساری دنیا میں
اسلام کی سربلندی اور نفاذ۔مراحل کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
No comments:
Post a Comment