Thursday, May 29, 2014

Khwāja Mo`īnuddīn chishti Was The Torchbearer Of Love, Compassion حضرت خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ عنہ ہندوستان میں امن، محبت، روداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے نقیب تھے


مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام

28 مئی 2014

عالمی سطح پر غریب نواز کے نام سے مقبولیت اور شہرت کے حامل اور بر صغیر ہندوستان میں چشتی سلسلہ طریقت کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی (1139تا1236 سنہ عیسوی) کی ولادت با سعادت اور پرورش و پرداخت مشرقی ایران کے سیستان کے علاقے میں ہوئی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر جب پندرہ سال تھی تبھی آپ کے والدگرامی کا انتقال ہوگیا۔ اپنے والد گرامی سے ترکہ میں کچھ نقد اور باغ کے علاوہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والدین سے میراث میں خلوص، محبت، صفائے قلب و باطن، خشیت الٰہی اور راہ خدا میں بے پناہ جذبہ ایثار و قربانی حاصل ہوا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ایام طفولیت کا عالم یہ تھا کہ وہ حقیر دنیاوی خواہشات اور ہوائے نفس سے بے نیاز ہو کر اپنا زیادہ وقت علم وعمل، زُہدوتقویٰ، مراقبہ اور مجاہدہ میں بسر کیا کرتے تھے۔

ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ پیڑ پودوں کی سینچائی کر رہے تھے کہ اچانک ابراہیم قندوزی نامی ایک بلند پایہ بزرگ اور مجذوب باغ میں داخل ہوئے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں ایام طفولیت سے ہی صوفیوں اور درویشوں کے لیے بے پناہ محبت اور عقیدت موجزن تھی اس لئے آپ نے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور حضرت ابراہیم قندوزی کے حضور انگور کا ایک خوشہ پیش کیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اپنے لیے اتنی عقیدت و محبت دیکھ کر اور آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر حضرت ابراہیم قندوزی نے اپنی گدڑی سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کو چبا کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو عنایت فرما دیا۔ اب کیا تھا روٹی کا وہ ٹکڑا کھاتے ہی آن واحد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ دل کی دنیا میں ایک انقلاب پرپا ہو گیا جس کے بعد آپ احوال باطن کی طرف متوجہ ہوئے اور مسلک صوفیہ کی جانب ان کا رجحان بڑھ گیا حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا سارا مال و اسباب راہِ خدا میں لٹا دیا اور خدا پر توکل کرکے تنِ تنہا تلاش حق

No comments:

Post a Comment