Sharia or Law Part-2 شریعت یا قانون ۔ حصہ دوم
ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
16 ستمبر ، 2013
اسلام پسندوں کا فرمان ہے کہ شریعت کے اطلاق کے لیے تگ ودو ایک ایسے آسمانی قانون کے لیے ہے جس کا موازنہ ان قوانین سے کیا ہی نہیں جاسکتا جو آئین ساز اسمبلیوں میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ آسمانی قانون کو وضع کرنے والا مخلوق کا خالق ہے لہذا وہ مخلوق سے بہتر ان کی مصلحت جانتا ہے، اس لیے شریعت کا اطلاق معاشرے کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ ہے چاہے یہ مسائل اقتصادی ہوں، علمی ہوں یا معاشرتی، اس سے لوگوں میں انصاف قائم کیا جاسکے گا جس سے امن قائم ہوگا اور معاشرہ ترقی کرے گا اور ہم خالق کی مدد سے تمام اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، اسے ثابت کرنے کے لیے وہ دورِ نبوت اور راشدین کی مثال دیتے ہیں جب ننگ دھڑنگ جاہل بدو لوگ قدیم دنیا کے سردار بن گئے اور اسلامی خلافت قائم ہوئی۔
بات اگر یہی ہے تو خلافت کی یہ سلطنت ساقط ہوکر ظلم وپسماندگی کی تاریخ بن کر کیوں رہ گئی؟ اور اگر ان کی بات درست ہے تو اس زمانے میں ہمیں شریعت کے اطلاق میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شریعت کی سزائیں ساری کی ساری جسمانی ہیں جیسے گردن مارنا، ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا وغیرہ اور قید کا تو تصور ہی نہیں ہے، جبکہ شکست خورداؤں کی عورتوں کی عزت اتارنا بھی پایا جاتا ہے، تو کیا اقوامِ متحدہ کی دنیا اور جینوا کے معاہدے یہ بربریت کرنے دیں گے؟ اور اگر کسی اسلامی ملک میں شریعت نافذ کر بھی دی جائے تو کیا دوسرے اسلامی ممالک میں اس کا اطلاق لازمی ہوگا یا نہیں یہ فرض کرتے ہوئے کہ اسلام یہی چاہتا ہے؟ اگر دوسرے اسلامی ممالک انکار کردیں تو کیا موقف اختیار کیا جانا چاہیے؟
ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
16 ستمبر ، 2013
اسلام پسندوں کا فرمان ہے کہ شریعت کے اطلاق کے لیے تگ ودو ایک ایسے آسمانی قانون کے لیے ہے جس کا موازنہ ان قوانین سے کیا ہی نہیں جاسکتا جو آئین ساز اسمبلیوں میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ آسمانی قانون کو وضع کرنے والا مخلوق کا خالق ہے لہذا وہ مخلوق سے بہتر ان کی مصلحت جانتا ہے، اس لیے شریعت کا اطلاق معاشرے کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ ہے چاہے یہ مسائل اقتصادی ہوں، علمی ہوں یا معاشرتی، اس سے لوگوں میں انصاف قائم کیا جاسکے گا جس سے امن قائم ہوگا اور معاشرہ ترقی کرے گا اور ہم خالق کی مدد سے تمام اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، اسے ثابت کرنے کے لیے وہ دورِ نبوت اور راشدین کی مثال دیتے ہیں جب ننگ دھڑنگ جاہل بدو لوگ قدیم دنیا کے سردار بن گئے اور اسلامی خلافت قائم ہوئی۔
بات اگر یہی ہے تو خلافت کی یہ سلطنت ساقط ہوکر ظلم وپسماندگی کی تاریخ بن کر کیوں رہ گئی؟ اور اگر ان کی بات درست ہے تو اس زمانے میں ہمیں شریعت کے اطلاق میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شریعت کی سزائیں ساری کی ساری جسمانی ہیں جیسے گردن مارنا، ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا وغیرہ اور قید کا تو تصور ہی نہیں ہے، جبکہ شکست خورداؤں کی عورتوں کی عزت اتارنا بھی پایا جاتا ہے، تو کیا اقوامِ متحدہ کی دنیا اور جینوا کے معاہدے یہ بربریت کرنے دیں گے؟ اور اگر کسی اسلامی ملک میں شریعت نافذ کر بھی دی جائے تو کیا دوسرے اسلامی ممالک میں اس کا اطلاق لازمی ہوگا یا نہیں یہ فرض کرتے ہوئے کہ اسلام یہی چاہتا ہے؟ اگر دوسرے اسلامی ممالک انکار کردیں تو کیا موقف اختیار کیا جانا چاہیے؟
No comments:
Post a Comment