Sunday, September 22, 2013

A Golden Opportunity for Arab Liberals عرب لبرلوں کا سنہری موقع

ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
23ستمبر، 2013
اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ مصر میں “سیاسی اسلام” کی ریاست زمیں بوس ہوچکی ہے اور شاید یہ زمیں بوسی اتنی بڑی اور طاقتور ہے کہ اب شاید ہی “سیاسی اسلام” کی ریاست کبھی عود کر آئے کیونکہ ایک ایسی ریاست جس کی قیادت “اخوان المسلمین” یا “حزب النور” جیسی سلفی جماعتوں یا اقتدار کے لالچی ازہر کے بعض شیخوں کے ہاتھ میں ہو جو مذہبی تسلط کے ساتھ ساتھ سیاسی تسلط کے بھی خواہاں ہیں کا مصر میں دوبارہ قائم ہونا اب ممکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصریوں نے “سیاسی اسلام” کے اس جعلی اور اغوا کردہ دورِ حکومت میں جو کچھ سہا ہے وہ ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے، بعض مفکرین کے مطابق مصر پر گزشتہ سال مسلط کی جانے والی “سیاسی اسلام” کی حکومت “پاک” اور “صحیح” اسلام کی نمائندگی نہیں کرتی تھی۔۔ بہرحال “سیاسی اسلام” کی جعلی اور اغوا کردہ ریاست مصر سے جا چکی ہے اور جدید دور کے جدید لبرل مصر پر حکومت کرنے واپس آگئے ہیں تاکہ مصر کو دوبارہ لبرل ازم کی پٹری پر ڈال سکیں جو یقیناً ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ثابت ہوگا۔
مجھے نہیں لگتا کہ مستقبلِ قریب میں مصر “اخوانی سیاسی اسلام” کا تجربہ دہرائے گا، تمام تر سیاسی، ابلاغی اور عالمی ابتدائی اشارے یہ بتاتے ہیں کہ آج اخوان المسلمین نہ صرف مصر بلکہ مصر کے باہر بھی شکست سے دوچار ہوئے ہیں، یہ شکست اس شکست سے بھی کہیں بڑی ہے جس سے وہ گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی میں دوچار ہوئے تھے اور جس کا شکار مصر کی سرکردہ شخصیات ہوئی تھیں جن میں مصر کے دو دفعہ وزیرِ اعظم بننے والے النقرانی باشا (1888-1948) جبکہ بعد میں خود حسن البنا (1906-1949) بھی اس کا شکار ہوئے تھے۔
اُس وقت کے عالمی اور علاقائی حالات میں آج کے مقابلے میں مندرجہ ذیل فرق پایا جاتا تھا:
 

No comments:

Post a Comment