Friday, September 20, 2013

Islamic Liberalism of Taha Hussain طہ حسین کا اسلامی لبرل ازم

ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
19 ستمبر ، 2013
اسلامی لبرل ازم کا مفہوم لبرل ازم کے مخالفین کو اب بہت کھٹکنے لگا ہے جس میں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی خلاصی پنہاں ہے خاص کر اگر ذیل کی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے:
1- ہمیں مذہب اور مذہبی شدت پسندوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا جنہوں نے “اسلامی لبرل ازم” کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ مصری فلسفی مراد وہبہ کے مطابق مذہب “ایمان” ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی ایک مخالف “عقیدہ” ہے۔
2- یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی انتہاء پسند جو “اسلامی لبرل ازم” کے مخالف ہیں انہوں نے ایمان کو عقیدہ بنا لیا ہے جسے وہ اپنے سیاسی، مذہبی اور فکری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
3- “اسلامی لبرل ازم” اپنی ذات اور اقدار میں ایک مذہب ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی اجتہادات، احکامات اور سزاؤوں کا ایک ملغوبہ ہے۔
4- یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی لبرل ازم کے حامی خواص ہیں جبکہ اس لبرل ازم کے مخالفین عوام ہیں اور عوامی مذہب کے پیروکار ہیں۔
5- اسلامی لبرل ازم کے پیروکاروں کا مقصد اچھے لوگ پیدا کرنا اور امن ومحبت کا پیغام دینا ہے جبکہ اس کے مخالفین کا مقصد دہشت گرد پیدا کرنا ہے تاکہ “مطلق حقیقت” کے دفاع کے لیے مسلح جد وجہد کی جاسکے جس پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہوجائیں یا مر جائیں، یہی کچھ ساری تاریخ میں ہوتا آیا ہے، سقراط انہی مطلق حقیقت کے حامل شدت پسندوں کا شکار ہوا تھا جب اس نے ان کا سامنا کیا اور ان کا مذاق اڑایا، مہاتما گاندھی، اسحق رابین اور انور السادات بھی انہی لوگوں کا شکار ہوئے تھے اور اب یہ لوگ ساری دنیا میں تباہی وبربادی لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

No comments:

Post a Comment