Friday, November 8, 2013

The State of Pakistan and Mullah Fazlullah ملا فضل اللہ اورپاکستانی ریاست



مجاہد حسین،  نیو ایج اسلام
8 نومبر، 2013
ملا فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر مقرر کیے گئے ہیں جس کے بعد امکان یہی ہے کہ طالبان پاکستانی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیں گے۔ملا فضل اللہ کا تحریک طالبان کا امیر مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی طالبان یکسر خود مختاری کے حامل ہیں اور اُنہوں نے ایسے تمام ساتھی گروہوں اور طالبان لیڈروں کو پچھلی صفوں میں دھکیل دیا ہے جو پاکستان کے ساتھ بعض معاملات میں ہمدردی کا رویہ رکھتے تھے اور اِنہیں اُمید تھی کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی حکومتیں اِن کے بارے میں نرم حکمت عملی اختیار کریں گی۔
اس تقرری کے بعد پاکستانی فوج کو بھی اس الزام سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا کہ وہ طالبان میں امتیاز کی پالیسی پر گامزن ہے۔بنیادی طور پر جو چیز بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بہت حد تک افغانی طالبان اور خاص طور پر حقانی نیٹ ورک سے ہدایات لینے کی پابند نظر نہیں آتی۔یہ ایک ایسی خود مختاری ہے جو تحریک طالبان کو مزید خطرناک اور مستحکم بنا کر ریاست پاکستان کے سامنے پیش کرتی ہے۔قبائلی پٹی اور پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں موجود تحریک طالبان کے زیادہ تر دھڑوں کا اتفاق رائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ سے بہت سے معاملات نکل چکے ہیں اور اِن کے ساتھ جو اِکا دکا طالبان گروہ کبھی کھڑے نظر آتے تھے وہ یا تو ختم ہوچکے ہیں یا پھر طاقت ور گروہوں میں خود کو مدغم کر چکے ہیں جس کے بعد پاکستان کے ساتھ اُن کا رویہ ایسے ہی ہے جیسے کسی دور میں شمالی اتحاد کے جنگجوؤں احمد شاہ مسعود وغیرہ کا ہوتا تھا۔وہ کسی صورت پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جب کہ تحریک طالبان کی صفوں میں شامل سینکڑوں غیر ملکی جن میں عرب، ازبک اور چیچن وغیرہ شامل ہیں اُن کی رائے میں وزن صاف دکھائی دیتا ہے جو پاکستان پر کسی صورت اعتبار کے قائل نہیں اور پاکستانی افواج کو نیٹو اور امریکی افواج جیسا تصور کرتے ہیں۔

 

No comments:

Post a Comment