Islamic Jihadist Attitude Must Not Be Imposed اسلامی جہادی ذہنیت دوسروں پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے: ہر شخص بین المذاہب مکالمہ کی جانب مائل ہو رہا ہے
علماء کے لیے آئین
شمیم مسیح
02 جنوری 2014
عالمی سطح پر اب ہر ملت و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بین المذاہب مکالمہ کی طرف اپنا میلان ظاہر کر رہے ہیں۔ لہٰذا کٹر اسلامی جہادی ذہنیت دوسروں پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے۔
2013 کے کرسمس کے جشن کے ذریعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی میں کسی عیسائی کو پاکستان کا وزیر اعظم بنتا ہوا دیکھوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کوئی غیر مسلم پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ لیکن آئین کی اس شق کے بارے میں کچھ ایسے حقائق ہیں جنہیں میں یہاں پیش کر رہا ہوں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم ایسا شخص ہونا چاہیے جو عملی طور پر مسلم ہو۔
پاکستان کا قیام 1947 میں انڈین انڈیپندینس ایکٹ 1947 کی شق 8 اور حکومت ہند کی دفع 1935 کے تحت عمل میں آیا۔ نو سالوں کے بعد ابتدائی دستاویز کو 1956 میں آئینی حیثیت حاصل ہوئی۔ پاکستان کی آئین میں مسلمان کی تعریف بھی پیش کی گئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جو اللہ کی وحدانیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر مطلقاً اور غیر مشروط ایمان رکھتا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی پر ایمان نہ رکھتا ہواور ہر اس شخص اور مذہبی مصلح کو یکسر مسترد کرتا ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے۔ لیکن جو شخص نیشنل اسمبلی کا اسپیکر ہو اس کے اوپر مذہب کا کوئی بار نہیں ہے۔ لیکن اگر صدر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدے یا اس کے خلاف غیر اعتمادی کا ووٹ ڈال دیا جائے تو آئین کے مطابق اس وقت تک صدر رہے گا جب تک کہ نئے سرے سے صدر کا انتخاب عمل میں نہ آ جائے۔
ان مخصوص حالات میں ایک غیر مسلم کو پاکستان کا صدر بننے کا موقع آسانی کے ساتھ ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں صوبائی وزیر اعلیٰ یا گورنر کے عہدے کے لیے مذہب یا جنس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت میں جب صرف کچھ ہی غیر مسلم امیدوار تھے، اہم ارکان حکومت کوخاص طور پر بنگال سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ممبران کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment