Urdu Section
عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت: قسط 51
بیبیوں کو خیال کرنا چاہئے کہ ان کا شوہر کس محنت اور تکلیف سے روپیہ کماتا ہے ۔ جس تکلیف سے وہ اس روپیہ کو پیدا کرتاہے اسی دردمندی کے ساتھ اس کو خرچ کرناچاہئے ۔ بجا اور بے جا خرچ کی شناخت کے لئے یہ اصول مقرر کرنا چاہئے کہ جب کوئی چیز بنوانی یا خرید کرنے کا ارادہ ہوتو اس وقت یہ دیکھا جائے کہ اگر یہ چیز گھر میں نہ ہوتو کچھ حرج یا قباحت ہے کہ نہیں۔ اگر کوئی ہرج یا قباحت نہ ہوتو جانو کہ یہ چیز فضول ہے اور روپیہ کو ایسے فضول طور پر ضائع کرنے سے بچانا چاہئے ۔ اس زمانہ میں آرام طلبی اور عیش پسندی کے سامان زیادہ ہوتے جاتے ہیں جن کی حقیقت میں کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پس ان کے طلب میں ہرگز نہیں پڑنا چاہئے ۔ بیوی کو کفایت شعاری کے لحاظ سے ہر چیز کا حساب رکھنا چاہئے اور خصوصاً خاص اپنے اخراجات کا اور شوہر کے اخراجات کا تاکہ اس کو ہمیشہ یہ بات یادر ہے کہ خاص میر ی ذات کے لئے کس قدر خرچ کی ضرورت ہے اور اس میں بغیر اشد ضرورت کے اور زیادتی نہ ہو اور یہ بھی خیال رہے کہ عمدہ سے عمدہ انتظام کرلینا آسان ہے لیکن کمانا بہت مشکل ہے ۔ پس انتظام کرنے والے کے اخراجات کمانے والے کے اخراجات سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں ۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس طرح اپنی حیثیت سے اترکر گھٹیاطریق زندگی اختیار کرنا خشت اور کنجوسی کہلاتا ہے اسی طرح اپنی حیثیت سے بڑھ کر بڑے آدمیوں کی ریس کرنا اور ان کا سا لباس اور طریقت معاشرت اختیار کرنا اوچھا پن کہلاتا ہے اور ایسا کرنے والوں پر لوگ کو سامنے کچھ نہ کہیں لیکن پیٹھ پیچھے ضرور ہنستے ہیں۔ ہماری قوم کے شرفا کے دستور کے موافق متوسط اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کا اور ان کے مستورات کا باہم ملنا ملانا ایک عام بات ہے ۔ دس روپیہ کا محررڈپٹی کلکٹر سےملتا ہے اور اسی طرح ان کی بیویاں بھی باہم ملتی جلتی ہیں ۔ اب اگر ایک ادنیٰ محرر کی بیوی ایسے عمدہ داروں کی بیویوں کی ریس کرنے لگے تو قطع اس کے کہ وہ اپنے شوہر کے لئے بلائے جان بننا چاہتی ہے وہ اپنی جگ ہنسائی کرواتی ہے۔
No comments:
Post a Comment