زاہدہ حنا (کراچی)
آپ کو بھی وہ زمانہ شاید یاد ہو جب اسکولوں اور کالجوں کے تقریری اور تحریری مقابلو ں میں یہ موضوع دیا جاتا تھا کہ ‘‘اسلام تلوار کی طاقت سے دنیا میں پھیلا !؟’’تو لکھنے اور بولنےوالے اس موضوع کی مخالفت میں پوری قوت سے لکھتے اور بولتے تھے۔ یہ لکھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ عیسائیوں اور بہ طور خاص انگریز کالگایا ہوا الزام ہے جسے ہم بالکل تسلیم نہیں کرتے۔ دنیا بھر کے اور بہ طور خاص برصغیر میں صوفیائے کرام کے ناموں کی ایک طویل فہرست گنوائی جاتی ہے ۔ بات ملتان میں آنے والے صوفیوں سے شروع ہوتی تھی اور پھر علی ہجویری ،معین الدین چشتی ،نظام الدین اولیا ، روشن چراغ دہلی، عبداللہ شاہ غازی ، لال شہباز قلندر اور سیکڑوں مشہور اور نسبتاً کم مشہور صوفیا کی فہرست پیش کردی جاتی تھی۔ دیوا شریف ،پیلی بھیت اور جانے کن کن درگاہوں کا نام لیا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے حسن سلوک اور وسیع المشربی سے غیروں کے دل موم کیے ۔ہزارہاں ان کے دست حق پر ست پر اسلام لائے ۔ یہ وہ صوفیا تھے جو ‘‘ مسلماں اللہ اللہ ،بابر ہمن رام رام ’’ کی بات کرتے تھے اور ان لوگوں کے دل جیتتے تھے جن کے سمندر کے درمیان ،باہر سے آنے والے مسلمان چھوٹے چھوٹے جزیروں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔بیشتر مورخین اور ماہرین عمر انیات کا کہنا ہے کہ اگر ان صوفیا نے ہندوستان میں رواداری اور وسیع المشربی کا یہ ماحول نہ بنایا ہوتا تو ابتدائی دور کے کٹر عقیدہ پرست آخر کار ہا ر جاتے۔ہندوستان کے طول وعرض میں شاید چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستیں وجود میں آجاتیں لیکن وہ عظیم الشان سماج وجود میں نہ آتا جس کے شاندار مظاہر ہمیں مغل اور اس کے بعد کے دور میں نظر آتے ہیں۔ یہ صوفیا کا ہی کمال تھا کہ تقسیم کے باوجود آج کے ہندوستان میں 20یا22کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان کی خانقاہیں اور درگاہیں آج بھی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہندوؤں کے لیے بھی واجب الاحترام ہیں، ہم آج بھی اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے ہندو زائرین کو صوفیا کی ان درگاہوں پر سرجھکاتے اور منتیں مانگتےد یکھتے ہیں۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/لوگوں-کانٹے-نہ-بونا/d/2329
No comments:
Post a Comment