نسبت امر دل ہم اہل اسلام ہندوستان کی حالت نہایت قابل افسوس پاتے ہیں ۔صرف یہ ہی نہیں کہ انہوں نے کوئی عام حد عمر نکاح مقرر نہیں کی یا بہت صغر سنی میں نکاح کیا جاتا ہے بلکہ دودھ پیتے بچوں او رکبھی کبھی بن پیدا ہوئے بچوں کا جو ابھی پیٹ سے جنیں ہوتے ہیں رشتہ ہوجاتا ہے جو نکاح سےبھی زیادہ موکد اور ناقابل اکتنسیخ ہوتا ہے۔ اس قسم کے ازدواج سے صرف یہ ہی نقصان نہیں ہوتا کہ فریقین ازدواج اس خود معاشرتی سے جو خوشی کے انتخاب و پسندیدگی کا نتیجہ ہے محروم رہ کرنا موافقت باہمی کدورت کی تلخی تام عمر چکھتے ہیں بلکہ اس زبردستی کے رشتہ کے ہوجانے کے بعد نکاح بھی ایسی صغرسنی میں ہوجاتا ہے کہ اس وقت تک لڑکے اور لڑکی کے اعضا کا نشوونما اس رشتہ کے قابل نہیں ہوتا۔ اس لئے جو بچے بچپن میں ہی شوہر و زوجہ او رچند روز بعد باپ اور ماں بن جاتے ہیں ان کی صحت کو ایسے سخت صدمے اٹھانے پڑتے ہیں کہ پھر کسی قسم کی تدبیر یا علاج سے تمام عمر اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔
جن شرائط پر دوسرے مقصد کا حصول ہے وہ بھی نکاح مروجہ میں کلی طور پر مفقود ہوتی ہیں اول تو شوہر کو زوجہ کے پسند کرنے کا اختیار ہی نہیں ہو تا اور اگر ہوتا بھی ہے تو دس بارہ برس کا بچہ کیا جان سکتا ہے کہ میں کس قسم کا اور کتنی مدت کےلئے معاہدہ کرتاہوں اور اس کا کیا اثر میری کل زندگی پر ہوگا لیکن اس قدر صغر سنی میں نکاح ہونا ایسا صریحا مذموم امر ہے کہ اس کی مذمت سے عموماً لوگ واقف ہوگئے ہیں اس لئے اس امر پر زیادہ زور دینا ضروری ہے ۔ لیکن جو نکاح عموماً زمانہ بلوغت یا اس سے بھی بعد عمل میں آتے ہیں ان کے پسندیدہ ہونے میں شاید بہت کم لوگوں کو کلام ہوگا ۔مگر ہم ان نکاحوں کو بھی سخت قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تجربہ ہے کہ کسی صورت میں لڑکی کو تو اپنے لئے شوہر کے پسند کرنے یا اس بات میں کچھ ضعیف سی بھی رائے دینے کا اختیار ہوتا ہی نہیں الا سمجھنا بھی کہ لڑکوں کو ایسا اختیار حاصل ہوتا ہے صریح غلطی ہے ہاں یہ صحیح ہے کہ بزرگوں کا بزرگانہ دباؤ اور عزیز واقربا کا زبردست لحاظ اور دوستوں کی پاس خاطران سب امور کا مجتمع قوی اثر بیچارہ لڑکے پر ڈال کر اس سے شرما شرمی کسی نہ کسی طرح اظہار پسندیدگی کر والیتے ہیں ۔مگر آیا یہ ان کی دلی اور حقیقی پسندید گی ہوتی ہے ان کی متاہلا نہ زندگی کے طریق عمل سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/عورت-اور-ا-ن-پر-مردوں-کی-جھوٹی-فضیلت---قسط-29/d/2188
No comments:
Post a Comment