Sunday, July 1, 2012

دو سو چوراسی برس سے نافذ فرمان, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
دو سو چوراسی برس سے نافذ فرمان

اکتوبر 2009کا دوسرا ہفتہ ختم ہونے کو آیا اور نوبل انعامات کا اعلان ہوچکا ۔مجھے خوشی اس بات کی ہےکہ دنیا کا یہ سب سے بڑا اعزاز اس مرتبہ چار عورتوں کے حصے میں سے ادب کا انعام ہرٹاملر کو ملا جبکہ کیمیا کے انعام میں ایک اسرائیلی خاتون حصہ دار بنی۔ اور طبیعات کے انعام میں ایک مرد اور دوسائنسداں عورتیں شریک رہیں۔اس طرح 2009میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک برس کے اندر یہ اعزاز 4عورتوں کو ملا ۔نوبل انعام پانے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیے تو اب بھی عورتوں کی تعداد بہت کم یعنی 36ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم وتحقیق کے شعبوں میں عورتوں کی راہ میں امتیازی سلوک کی رکاوٹیں رہی ہیں جس نے انہیں مسابقت کا ہموار میدان فراہم نہیں کیا ۔ ا سکے باوجود وہ آگے بڑھی ہیں اور ان کی پرواز کا افق وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ دنیا کے دوسرے انعامات یا نوبل انعام کی فہرست میں عورتوں کا نام پڑھتے ہوئے مجھے دلی مسرت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال ذہن میں سراٹھاتا ہے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی والی مسلم امہ میں سے کسی عورت کی حصے میں ادب یا سائنس کا کوئی انعام کیوں نہیں آیا؟یہ ممکن بھی کیسے تھا کہ آج اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سوڈان کی ایک خاتون کوصرف اس خطا میں ذرے مارے جاتے ہوں کہ اس نے ‘‘جینز’’ جیسا غیر اسلامی لباس پہنا تھا اور سعودی عرب میں پہلے مخلوط تعلیمی ادارے کے قیام سے دین کے محافظوں کی نیندیں اڑجاتی ہوں۔ آج ہم امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل ،یورپ اور دنیا کے دوسرے غیر مسلم ممالک کی عورتوں کو تیز ی سے آگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو اس کا سبب یہ نہیں کہ مسلمان عورتوں سے کہیں زیادہ ذہین ہیں۔ اصل مسئلہ مساوی مواقع کے فراہم ہونے کا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں عورتوں نے آج سے نہیں پانچ صدیوں سے تعلیم اور اپنے دوسرے سماجی اور سیاسی حقو ق کے لیے ایک لمبی لڑائی لڑی ہے۔انہوں نے کبھی بھی کسی طرح کی مراعات کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا کہناہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہم مساوی مواقع کے طلب گار ہیں کیونکہ اگر زندگی کی دوڑ میں اترتے ہوئے ہمارے پیر بندھے ہوئے ہوں اور پھر ہمیں دوڑ نہ جیتنے کے طعنے دیے جائیں ،یہ کہا جائے کہ ہم نالائق اور نااہل ہیں ، ناقص العقل اور کم تردرجے کی مخلوق ہیں تو ہمارے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔میرے سامنے شیریں عبادی کا نام ابھر تا ہے ایک ایرانی قانون داں خاتون جنہیں 2003میں امن کا انعام دیا گیا تو ایران کے حکمران اور کٹر مذہبی حلقوں میں کہرام برپا ہوگیا۔ شیریں ایران کی پہلی جج خاتون کہ عہدے پر فائز ہوئیں لیکن 1979میں انقلاب ایران کے فوراً بعد شیریں سمیت تمام جج خواتین اپنے عہدوں سے فارغ کردی گئیں اور جس عدالت میں انہوں نے جج کے طور پر کام کیا تھا وہیں ان سے کلرک کے طور پر کام لیا گیا۔ تمام جج خواتین نے جب اس ناانصافی پر احتجاج کیا تو انہیں ‘‘ماہرین قانون’’ کالقت دیا گیا۔ کئی برس کی جدوجہد کے بعد 1992میں شیریں کو اس بات کی اجازت ملی کہ وہ وکیل کے طور پر ایرانی عدالتوں میں پیش ہوسکیں اور ان لوگوں کا مقدمہ لڑسکیں جو اپنے سیاسی خیالات، ترقی پسند ادیب، سرکار مخالف صحافی یا مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ریاستی جبر کا شکار ہیں۔

http://www.newageislam.com/urdu-section/دو-سو-چوراسی-برس-سے-نافذ-فرمان/d/2304


No comments:

Post a Comment