Saturday, June 30, 2012

عورت اور ا ن پر مردوں کی جھوٹی فضیلت : قسط 31, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
عورت اور ا ن پر مردوں کی جھوٹی فضیلت : قسط 31
مجھے ایک شریف خاندان کے نکاح میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا۔ بارات لڑکی والوں کے ہاں جا پہنچی تھی۔نکاح کا وقت آگیا تھا قاضی کی آمد کا انتظار تھا کہ کسی خبر کرنے والے نے دولھا کو خبردار کردی کہ وہ لڑکی جس کو تم تمام دنیا میں سے اپنے واسطے عمر بھر کے لئے مونس غمخوار منتخب کرنا چاہتے ہو وہ محض ناخواندہ او ر چیچک رو اور ایک آنکھ سے کانی ہے۔ دولھا نے تمام عمر کی تکلیف میں پڑنے اور اس کی تلخیاں چکھنے کی نسبت اس وقت کی لحظ بھر کی بے شرمی کی ذلت کو گوارا کر کے عزم مصمم کرلیا کہ میں اس کانی دولہن کو منظور نہ کروں گا۔ بڑے بوڑھے لوگوں کو جنہوں نے بڑی چھان بین سے اچھی ہڈی کی دولہن چھانٹی تھی سخت تشویش پیدا ہوئی ۔آخر اپنے اپنے خیالات کے بموجب دولہا کی دلجوئی کرنی شروع کی۔ کسی نے کہا بھائی تم ابھی بچے ہو بیوی کی شکل صورت نہیں دیکھتے ۔بیوی کی سیرت دیکھنی چاہئے کسی نے کہا میاں لڑکے کیسے غضب کی بات ہے کہ تم کنوارے ہو۔ ایک اور بولے ارے میاں یہ کون مشکل کی بات ہے ۔ماں باپ کی اطاعت فرض ہے۔اگر تم کو یہ بیوی پسند نہ آئی تو اپنے پسند کی اور کرلینا ۔جو خدا نے مقدور دیا تو دو کرلینا ۔تین کرلینا ۔چار کرلینا ۔ ان سے بھی ہوس پوری نہ ہوئی تو طلاق دے کر ان کو ادل بدل کرتے رہنا ۔ہم ذمہ دار بنتے ہیں کہ جیسی خوبصو رت بیوی چاہوگے ہم تم کو ڈدھونڈ دیں گے ۔غرض وہ بیچا رہ دم میں آگیا اور قاضی کے آگے جا بیٹھا ۔اور قبول کیا کا بول منہ سے نکلنا تھا کہ عمر بھر کے لئے لاعلاج روگ لگ گیا ۔سمجھا نےوالے پلاؤ زردہ کھا کر چلے گئے اب اس بیچارہ میں نہ اس قدر استطاعت ہے کہ دوسرا نکاح کرسکے ۔ نہ اس قدر مقدور کہ پہلی بیوی کا مہرادا کرکے اس سے خلاصی پائے درویش برجان درویش عجب بلا میں مبتلا ہے۔ وہ مظلوم لڑکی نہ بیوی ہے نہ مطلقہ بلکہ معلقہ اور وہ بے گناہ سوچتی ہے اور خدا کے آگے رورو کرالتجا کرتی ہے کہ یا الہٰی میرا اس معاملہ میں کیا قصور ہے ۔ آر سی مصحف کے سوا میرے شوہر نے میر شکل اپنے شوہر کے پاس لحظ بھر بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی کہ میں اپنے پر کئے اور نامعلوم تقصیروں کی معافی مانگتی ۔ اسے مقلب القلوب تو میرے شوہر کا دل نرم کر کہ وہ مجھ غمزدہ اور ستم رسیدہ کواپنی ادنیٰ ترین باندی سمجھ کر موقع خدمت گزاری کا دیں ۔ میں نہیں جانتا جن عقل کے اندھے والدین نےاپنی بیٹی کی زشت روئی چھپانے میں کوشش کی اور جہاں تک ہوسکا اس کوحسین وقبول صورت ظاہر کرنا چاہا ان کو اپنی لخت جگر کے ایسے نکاح سے کیا خوشی حاصل ہوئی ہوگی ۔ اسی طرح جن کوتاہ اندیشیوں اور نالائقوں نے دولہا کو خلاف مرضی پھسلا بہلا کر جال میں ایک مرتبہ پھس سانا کافی سمجھا وہ خود اپنے جگر گوشہ کی تلخامی اوربہو کی ناشاد زندگانی سے کیا دلشاد ہوتے ہوں گے۔(جاری)

No comments:

Post a Comment