اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اسما جس طرح او ر لوگوں کے روبرو ہوتی تھیں اسی طرح اپنے جیٹھ پیغمبر خدا کے روبرو ہوتی تھیں انہوں نے کوئی فرق پردہ کے باب میں اپنے جیٹھ یعنی پیغمبر خدا اور غیر محرموں میں نہیں رکھا تھا ۔ نہ رسول خدانے کوئی اس قسم کا فرق ان کا بتلا یا تم اور غیرمحرموں کے روبرو تو ہوا کرو اور ہمارے روبرو ہونا موت کے برابر خطرناک سمجھو ہاں وہی مزاجوں کے وہم سے کچھ بعید نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ ممکن ہے کہ اس وقت اسما کے منہ پر برقع پڑا ہوا اور وہ گھوڑے کو چرا کر اور بوجھ سر پراٹھا کر برقع اوڑھے آرہی ہوں اور پیغمبر خدا نے محض بیرونی قرائن سے ان کو شناخت کرلیا ہو مگر ان وسوسوں کا علاج بجزلا حول پڑھنے کے اور کچھ نہیں یا زیادہ اطمینان چاہو تو اس حدیث کو ملاحظہ کرو جو صاحب فتح القدیر نے نقل کی ہے اور جن کامضمون یہ ہے کہ ایک مرتبہ اسما نہایت مہین کپڑے پہن کر آپ کی خدمت میں آئیں آپ نے فرمایا کے اے اسما جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کو سوائے ہاتھ او رچہرہ کے کوئی حصہ جسم کا غیر محرم لوگوں کے سامنے نہیں کھولنا چاہیے ۔پس کچھ شک نہیں کہ اولا اس حدیث کے وہ معنے ہیں جو اخیر میں بیان ہوئے اور ثانیاً اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ عورت کے پاس صرف تنہا ئی میں جانے کی ہے۔ محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں کسی عورت کے پاس جانے ممانعت نہیں ہے۔
شبہ دوم: ام سلمہ کی حدیث سے جس کو اصحاب نے بیان کیا ہے ثابت ہوتا ہے کہ جناب پیغمبر خدا نے ام سلمہ کو عبداللہ ابن مکتوم کے روبرو ہونے سے منع کیا حالانکہ وہ محض نابینا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھا ہے تم اندھی نہیں ہو۔
جواب: اگر یہی بات ہے تو عورت کو مرد کے چہرہ پر نظر ڈالنی بالکل حرام ہوتی لیکن جب مستورات برقع یا چادر اوڑھ کر باہر نکلتی ہیں تو ان کی نظر اجنبی مردوں کے چہروں پر ضرور پڑتی ہے گومردان کو نہ دیکھ سکیں ۔پس وہ ہی اعتراض صحیح ہوتا تو ازواج مطہرات کی نسبت کیا کہا جائے گا جو عیدین میں آتی جاتی تھیں اور باہر اپنے حوائج ضروری کو نکلتی تھیں اور خانہ کعبہ کا طواف کرتی تھیں۔ کیا معاذ اللہ ان کا یہ فعل ناجائز تھا اور رسول خدا اس ناجائز فعل پرسکوت فرماتے تھے۔ ہر گز نہیں ۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کے چونکہ عبداللہ ابن مکتوم نا بینا تھا ممکن ہے کہ اس کے لباس میں بلحاظ ستر عورت کوئی ایسا نقص ہو جس کی وجہ سے اس کا ام سلمہ کے روبرو ہونا نامناسب سمجھا گیا ہو۔ چنانچہ علامہ ابن حجرنے بخاری میں یہی لکھا ہے کہ عبداللہ ابن مکتوم کا کوئی جزوبدن ضرور کھلا ہوگا جس کی اس کو بوجہ نابینا ہونے کے خبر نہ ہوگی اور اجنبی لوگوں کے چہرے دیکھنے کے جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ہمیشہ عمل یہ ہی رہا ہے کہ مستورات مساجد اور بازاروں اور سفر کو جاتی تھیں او رنقاب ڈال لیتی تھیں کہ مرد نہ دیکھیں مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں ہوا کہ وہ اپنے چہرے پرنقاب ڈالا کر یں کہ ان کو مستورات دیکھنے نہ پائیں ۔ اسی واسطے امام غزالی بھی اس جواز پر یہی حجت لائے ہیں او رکہا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورت کو اجنبی مرد کے چہرہ کا دیکھنا ناجائز ہے۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/عورت-اور-ان-پر-مردوں-کی-جھوٹی-فضیلت--قسط-23/d/2161
No comments:
Post a Comment