حامد میر
سپریم کورٹ کا بہت شکریہ کہ وزارت داخلہ کوحکم دے کر بیگم نصرت بھٹو کا نام ایگزٹ کنٹرل لسٹ سے خارج کروا دیا گیا۔80سالہ بوڑھی اور بیمار بیگم نصرت بھٹو سمیت تمام اراکین پارلیمنٹ کے نام ایس سی ایل سے نکال دیئے گئے ہیں۔وفاقی وزرا نے عدالتوں میں پیش ہوکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا شروع کردیا ہےاور ان کی ضمانتیں شر وع ہوگئیں ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو سپریم کورٹ کی طرف سے این آر وکیس میں فیصلے پر اعتراضات کئے بغیر کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ فیصلے پر اعتراضات کرنے والوں میں صرف پیپلز پارٹی کے رہنما نہیں بلکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر ،وکیل رہنما علی احمد کرد، عابد حسن منٹو اور کئی دانشور بھی شامل ہیں۔ اس میں سے کسی کی بھی نیت پر شک کئے بغیر میں صرف یہ گزارش کروں گا کہ این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کیجئے اور پھر کوئی رائے قائم کیجئے ۔فیصلے ہر اعتراضات کرنے والے قانونی ماہرین اور دانشور اس امر پر متفق ہیں کہ این آر او گھٹیا قانون تھا اور اسے ختم کرنے کے سواکوئی دوسرا راستہ نہ تھا تاہم انہیں خدشہ ہےکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ جولائی 2009کےفیصلے میں غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے مداخلت کا راستہ کرچکی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئین کی ان دفعات کے ذکر پر اعتراض ہے جو جنرل ضیا الحق کےدور میں پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین میں داخل کی گئیں ۔ ان دفعات کو پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین میں داخل کی گئیں ۔ان دفعات کو پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین سےنکالا جاسکتا ہے لہٰذا ہم سب کو چاہئے کہ پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ پارلیمنٹ اس وقت تک کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کرسکتی جب تک 17ویں ترمیم ختم نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ کے اختیارات ایوان صدر سے واپس نہیں آتے ۔17ویں ترمیم کے خاتمے کیلئے پیپلز پارٹی اور مسلم (ن) کے علاوہ دیگر جماعتو ں کو جلد از جلد کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں صرف17جج ہیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین کی تعداد تقریباً ساڑھے چار سو ہے۔ بہت سے کام ایسے جو پارلیمنٹ کرسکتی ہے لیکن پارلیمنٹ نہیں کررہی ۔این آر او کو مسترد کرنا پارلیمنٹ کا کام تھا لیکن پارلیمنٹ نے یہ کام نہیں کیا۔ اب جب سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں اپنا مختصر فیصلہ سنا دیا ہے تو تفصیلی فیصلے کا انتظار کئے بغیر کہا جارہا ہے سندھ کے ساتھ زیادتی ہوگئی ۔پیپلز پارٹی نے مہران بنک اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبلہ کیا ہے۔گزارشں یہ ہے کہ ایئر مارشل اصغر خان کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فروری 1997میں اس مقدمے کی سماعت شروع کی تھی جبکہ 20اپریل 1994کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اس اسکینڈل کے کچھ کرداروں کو قومی اسمبلی میں بے نقاب کرچکے تھے ۔بعد ازاں پیپلز پارٹی کی حکومت نے 24جولائی 1994کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی سے ایک حلفیہ بیان بھی حاصل کرلیا جس میں انہوں نے وہ تمام نام گنوادیئے جن کو 1990اور 1993کے درمیان آئی ایس آئی نے مہران بینک اور حبیب بینک کے ذریعہ بھاری رقوم دیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جولائی 1994سے نومبر 1996تک کچھ نہ کرسکی حالانکہ مقدمہ درج کر کے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مشکل کا م نہ تھا لیکن شاید پیپلز پارٹی فوج اور آئی ایس آئی کی ناراضگی سے ڈرتی رہی۔ نومبر 1996میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اصغر خان کی درخواست پر فروری 1999تک سماعت تقریباً مکمل ہوچکی تھی۔ لیکن نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی اپنے عہدے پر نہ رہے اور یہ کیس سرد خانے میں چلا گیا۔
http://www.newageislam.com/-سترہ-جج-اور-442--اراکین-پارلیمنٹ/urdu-section/d/2271