جس طرح ہر فرد کا اپنا ایک مزاج ہوتاہے اسی طرح ہر شہر کا اپنا الگ مزاج ہوتاہے ۔کلکتہ کا اپنا ایک مزاج ہے، لکھنؤ کا اپنا ایک مجموعی مزاج ہے، اورممبئی کا اپنا مجموعی مزاج ہے اسی طرح دلی کا بھی اپنا ایک مجموعی مزاج ہے۔ تمام بڑے شہروں میں مضافات بلکہ ملک کے تمام شہروں اور گاؤں سے لوگ آکر بستے ہیں اور ان کی وجہ سے اس شہر کا ایک مجموعی مزاج تشکیل پاتاہے۔ دلی ّ ہندوستان کا ایک ایسا شہر ہے جہاں صرف ملک کے طول و عرض سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے لوگ آکر آباد ہوئے ہیں۔ یمن، سعودی عرب، عراق، ایران، چین، نیپال، سری لنکا وغیرہ ممالک سے لوگ آکر صدیوں سے آباد ہوتے رہے ہیں اور یہاں کہ مشترکہ کلچر کی تعمیر کی ہے۔ لہذا، دلیّ کا مجموعی مزاج بھارت کے دوسرے تمام بڑے شہروں سے مختلف ہے۔ اس کا مزاج آفاقی اور تعمیری ہے۔
حالیہ انتخابات میں دلی ّ نے اپنے اسی آؔفاقی مزاج کی پہچان کرائی ہے۔ اس الیکشن میں بی جے پی نے دلی ّ میں یوپی ماڈل کا تجربہ کیاتھا۔ یعنی فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کرکے یہاں کے آفاقی مزاج رکھنے والے شہریوں کو مذہبی منافرت اور مصنوعی خو ف میں مبتلا کرکے الیکشن جیتنے کی کوشش کی تھی۔ شاہد بھارت کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار اتنی تعداد میں پورے ملک سے وزرائے اعلی، ایم پی، ایم ایل اے اور سینئر پارٹی لیڈران نے انتخابی مہم چلائی۔ دلی ّ کے ماحول میں فرقہ پرستی کا زہر گھولاگیا اور ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ نوجوانوں کو ”دیش کے غداروں کو“ گولی مارنے کی ترغٰب دی گئی اور صرف اس مقصد کے لئے جلوس بھی نکالے گئے۔ شاہین باغ کو انتخابی موضوع بنایاگیا اور وہاں پر احتجاج پر بیٹحی خواتین کو پاکستانی اور غدار کہاگیا۔ جس طرح گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں یوپی میں مسلمانوں کے خلاف کھل بی جے پی کے لیڈروں نے زہر افشانی کی تھی اور کامیابی حاصل کی تھی اسی طرح دلی کے انتخابات میں بھی کھل کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی مگر نتائج سے واضح ہوگیا کہ دلی ّ کے عوام نے اس یوپی ماڈل کو رد کردیا۔
ایک بات جو نمایاں طور پر مشاہدے میں آئی کہ شاہین باغ کے احتجاج کے خلاف جتنی بھی شر انگیزی ہوئی اس میں دلی ّ کا کوئی فرد پکڑا نہیں گیا۔ رام بھکت جس نے جامعہ کے طالب علم شاداب پر گولی چلائی وہ گریٹر نوئیڈا کا رہنے والا ہے اور گریٹر نوئیڈا یوپی کا علاقہ ہے۔ کپل گجر جس نے شاہین باغ میں فائرنگ کی وہ بھی گوجر طبقے سے تعلق رکھتاہے جو کہ ہریانہ کا ہے۔ گنجا کپور جوشاہین باغ میں ویٖٖڈیو ریکارڈنگ کرتی ہوئی پکڑی گئی وہ لکھنؤ سے آئی تھی اور بجرنگ دل کے جو نوجوان شاہین باغ میں پکڑے گئے وہ جھارکھنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بی جے پی کی اس سازش میں دلی ّ کے افراد نے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اور یہ وجہ ہے کہ بی جے پی کے یوپی ماڈل کو دلی ّ والوں کی حمایت نہیں مل سکی۔
دلی میں پورے ملک سے لوگ تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے لئے آتے ہیں۔ لہذا، یہاں کوئی بے کار نہیں بیٹھتا۔ اور نفرت اور تشدد کی سیاست کے لئے سیاسی پارٹیاں بیروزگار افراد کو ہی استعمال کرتی ہیں۔دلی ّ میں لوگ اپنا مستقبل بنانے آتے ہیں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اپنا مستقبل تباہ کرنے کے لئے نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی تخریبی سیاست کو دلیّ کے نوجوانوں کی حمایت نہیں حاصل ہوئی۔ اروند کیجریوال نے ترقیاتی کاموں کا اتنا اونچا معیار قائم کردیاہے کہ بی جے پی جیسی پارٹی کے لئے اس تک پہنچ پانا مشکل ہوگیاہے۔ نتیجے میں اس کے اندر فرسٹریشن ہے اور اس کے پاس کیجریوال کی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے مذہبی منافرت اور تشدد کی سیاست کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا۔ دلی ّ والوں نے منوج تیواری جیسے نظریاتی طور پر کھوکھلے لیڈر کے مقابلے ایک آئی پی ایس افسر اروند کیجریوال کا انتخاب کیا۔ اس طرح دلی ّ کے عوام نے تعمیری اور مثبت سیاست کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے ایجنڈے کی تشکیل نو کے لئے دعوت دی ہے۔
No comments:
Post a Comment