سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
اسلام میں مرتد اسے کہتے ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد دین سے پھر جائے اور دوسرا مذہب قبول کرلے یا پھر اپنے پرانے دین پر لوٹ جائے۔ عہد نبوت میں بہت سے لوگ مختلف وجوہا ت کی بنا پر مرتد ہوجاتے تھے جن میں ایک وجہ تھی زکوۃ کی ادائیگی۔ اس کے علاوہ مختلف ادوار میں لوگوں کے مرتد ہونے کے مختلف اسباب رہے۔ دور حاضر میں جہاں غیر مسلموں کی بڑی تعداد داخل اسلام ہورہی ہے وہیں کچھ لوگ اسلام سے کنارہ کشی کرکے مرتد ہوچکے ہیں۔ عہد نبوت میں کچھ لوگ تو اعلانیہ مرتد ہوجاتے تھے توکچھ لوگ اپنے مرتد ہونے کا علان نہیں کرتے تھے۔ اور خود کو مسلمان ہی ظاہر کرتے تھے۔ اللہ ایسے لوگوں کی منافقت سے رسول ﷺ کو مطلع کردیتاتھا:
”اور تو مطلع ہوتارہتاہے ایسے لوگوں کی دغا پر۔“ (المائدہ: 12)
ارتداد، قرآن کی رو سے ایک بہت ہی سنگین گناہ ہے یعنی گناہ کبیرہ ہے اور اللہ نے مرتد کے لئے آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قرآں کے مطابق مرتد پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام مخلوقات کی لعنت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہیں گے۔ کیونکہ مرتد اللہ کی وحدت اور حقانیت سے منکر ہوکر کافروں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔
اللہ انسانوں سے حد درجہ محبت کرتاہے اور اس لئے چاہتاہے کہ انسان کفر اور شرک سے کنارہ کرکے اس کی امان میں آجائیں اور جنت کا حقدار بنیں۔ لہذا، جب کوئی انسان کفر اور شرک سے متنفر ہوکر اللہ پر ایمان لے آتاہے تو اللہ کو بیحد خوشی ہوتی ہے کہ اس کا ایک بندہ دوزخ کا ایندھن بننے سے بچ گیا۔ مگر جب وہ بندہ دنیاوی محرکات کے سبب دین سے پھر جاتاہے تو اس کی مثال اس عورت کی طرح ہوتی ہے جو اپنا سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکرے ٹکرے کردے۔ لہذا، اللہ ایسے شخص سے بے حد ناراض ہوتاہے اور ا سکے لئے دوزخ میں مقام مقرر فرماتاہے۔
بہرحال، یہ نکتہ اہم اور قابل غور ہے کہ ارتداد کو ایک نہایت سنگین جرم اور گناہ کبیرہ قرار دینے کے باوجود قرآن اس کے لئے کسی دنیاوی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کرتا جبکہ دوسرے گناہوں کے لئے وہ دنیا ہی میں سزا تجویز کرتاہے۔ چوری کے لئے قرآن نے ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی ہے، زنا کے لئے سو کوڑے، فساد اور ناحق قتل و غارتگری کے لئے مخالف سمت سے ہاتھ پیر کاٹنے وغیرہ کا قانون بنایاہے مگر مرتد پر اللہ نے لعنت پھٹکار تو کی ہے مگر اس کے لئے صرف آخر ت میں درد ناک عذاب مقرر کیاہے۔ اس کے لئے کسی دنیاوی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔
”جو لو گ مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے، پھر مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے پھر بڑھتے رہے کفر میں تو اللہ ان کو ہرگز بخشنے ولا نہیں اور نہ دکھلاوے ان کو راہ۔“ (النسا: 137)
کوئی بھی شخص مسلمان ہو کر کافر ہوجائے پھر تائب ہوکر مسلمان ہوجائے پھر اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہوکر دوبارہ اسلام قبول کرلے مگر پھر حالات اسلام کے نا موافق ہوتے دیکھ کر پھر کافر ہوجائے اور اسی حالت میں اپنی فطری موت مرجائے یہ اسی وقت ہوسکتاہے جب اس کو پہلی بار اسلام سے پھر جانے پر قتل نہ کیاجائے۔ بلکہ دوبارہ اسلام لاکر مرتد ہوجانے پر بھی قتل نہ کیاجائے۔
جیسا کہ اوپر کہاجاچکاہے کہ اللہ انسان سے بیحد محبت کرتاہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا بندہ کفر اور شرک کی بنا پر ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے اس لئے وہ انسان سے مایوس نہیں ہوتا اور توقع کرتاہے کہ اس کا بندہ ایک دن توبہ کرکے اس پر ایمان لے آئیگا۔
”کیونکر راہ دے گا اللہ ایسے لوگوں کو کہ کافر ہوگئے ایمان لاکر اور گواہی دے کرکہ کہ بے شک رسول سچاہے اور آئیں ان کے پاس نشانیاں روشن اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ ہلکا ہوگا ان سے عذاب اور نہ ان کو فرصت ملے گی مگر جنہوں نے توبہ کی اس کے بعد اور نیک کام کئے تو بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔ جولوگ منکر ہوگئے مان کر پھر بڑھتے رہے انکار میں ہرگز قبول نہ ہوگی ان کی توبہ اور وہی ہیں گمراہ۔ جو لوگ کافرہوگئے اور مرگئے کافر تو ہرگز قبول نہ ہوگا کسی ایسے سے زمین بھر کر سونا۔“ (آل عمران: 91)
لہذا، قرآن مرتد سے درگذر کرنے اور انہیں ٰ معاف کرنے کا مشورہ دیتاہے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کب وہ کسی کا دل پھیر دے اور اسلام کی طرف مائل کردے۔
No comments:
Post a Comment