سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
این آر سی کے خلاف احتجاجوں کے دوران دلی کی شاہین باغ کی بچی اور کلکتہ کی بزرگ خاتون صمیدہ خاتون کی موت سے مظاہروں کے تئیں خواتین کی شدید وابستگی اور سماجی اور سیاسی شعور کی بیداری کا اندازہ ہوتاہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان اموات نے ان کے حوصلوں کو متزلزل کرنے کے بجائے مزید تقویت پہنچائی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ان پر فائرنگ بھی ہورہی ہے اور ”دہشت گرد تنظیم ”لشکرِ میڈیا“ کے خودکش حملے بھی ہورہے ہیں مگر ان خواتین کے پائے ثبات میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں ایشیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں ان میں خواتین نے قائدانہ کردار ادا کیاہے اور ان کی قیادت اور سرگرم شمولیت سے تحریک کامیاب ہوئی ہے۔ 2011ء میں بہار عرب کے نتیجے میں خلیجی اور افریقی ممالک میں جو انقلاب اور سیاسی تبدیلیاں آئیں وہ خواتین کی تحریک کے نتیجے میں ہی آئیں۔ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کے خلاف سب سے پہلے عورتوں ہی نے قاہرہ کے تحریر چوک پر احتجاجی دھرنا شروع کیاتھا اور کچھ ہی دنوں میں وہاں مظاہرین کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اگرچہ ان خواتین کو حکومت نے ڈرانے کے لئے کئی طرح کے غیر جمہوری اور غیر اخلاقی طریقے اپنائے مگر خواتین نے ہار نہیں مانی۔ ان شبانہ روز مظاہروں میں نوجوان خواتین کے ساتھ ساتھ ضعیف خواتین، نوجوان لڑکیاں اور ماؤں کی گود میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوتے تھے۔واضح ہو کہ یہ مظاہرے 25جنوری 2011شروع ہوئے تھے اور 18دن کی زور دار تحریک کے بعد 11 فروری کو حسنی مبارک نے استعفی دے کر فوج کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپ دی تھی۔ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے ان مظاہروں کو کچلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ انہوں نے مظاہرین کو ڈرانے کے لئے فائٹر پلین مظاہرین کے اوپر اڑائے تھے اور حسنی مبارک نے اپنے حامیوں کو انہیں ہٹانے کے لئے بھی بھیجا تھا اور مظاہرین کے ساتھ ان کی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ مگر چونکہ مظاہرین کے اندر انقلاب کا حقیقی جذبہ تھا اس لئے حسنی مبارک کے زر خرید حامی پسپا ہوئے اور بالآخر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑدینا پڑا۔
بنگلہ دیش میں بھی شاہ باغ تحریک اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے 4 فروری 2013 ء میں جب 1971ء کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں عبدالقادر ملا کو انٹر نیشنل وار کرائم ٹرائبونل نے مجرم قراردیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی تو بنگلہ دیش کے عوام کی ایک بڑی تعداد اس فیصلہ سے مطمئن نہیں تھی۔کیونکہ ان پر 344افراد کے قتل کا الزام تھا۔ لہذا، فیس بک اور ٹویٹر پر اس فیصلے کی تنقید ہونے لگی اور لوگ عمر قید کو پھانسی کی سزا میں بدلنے کی مانگ کرنے لگے۔ انہی میں سے ایک لڑکی لکی اختر تھی۔ اس نے فیس بک پر لکھا کہ میں شاہ باغ میں احتجاج کے لئے جارہی ہوں میرے ساتھ سبھی آئیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ہزاروں لوگ ا س کے ساتھ شاہ باغ پہنچ گئے۔ مظاہرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتاگیا اور یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔ اس مظاہرے میں بھی لڑکیوں کے ساتھ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ شامل ہوتی تھیں اور بزرگ عورتیں بھی ان کے شانہ بہ شانہ احتجاج کرتی تھیں۔ بالآخر حکومت کو ان کے مطالبے کو تسلیم کرلینا پڑا اور عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح بنگلہ دیش کی شاہ باغ تحریک بھی ایک عورت نے شروع کی اور عورتوں نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔
بھارت میں بھی این آرسی اوراین پی آر اور سی اے اے جیسے غیر دستوری بلکہ غیر انسانی قوانین کے خلاف خواتین نے ہی منظم تحریک شروع کی۔ اور مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے اس کو اپنا خون جگر دیاہے۔ دلی کی شاہن باغ کی خواتین نے 15دسمبر 2019 کو پرامن احتجاج شروع کیا جس میں خواتین کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی۔ جس طرح مصر کے تحریر چوک کا احتجاج پورے مصر میں ایک علامت بن گیاتھا اسی طرح شاہین باغ کا احتجاج ظالم حکومت کے خلاف احتجاج کی ایک علامت بن گیا اور ملک کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں شاہین باغ کی طرز پر اور شاہین باغ کے ہی نام سے احتجاجی دھرنے شروع ہوگئے۔یہ دھرنے رسمی نہیں ہیں کیونکہ یہاں خواتین اور مرد دن اور رات مسلسل دھرنے پر بیٹھے حکومت سے ان سیاہ قوانین کو واپس لینے کی مانگ کررہے ہیں۔ مصر کی حکومت ہی کی طرح یہاں کی حکومت بھی ان مظاہرین کو ڈرانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ کئی جگہوں پر پولیس نے خواتین مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں اور انہیں گندی گالیاں دیں۔ شاہین باغ میں ہندوتوا وادی تنظیموں سے وابستہ لوگ آکر فائر بھی کرچکے ہیں۔ مصر کی حکومت کی طرح حکومت کے حامی افراد شاہین باغ کے مظاہرین کے ساتھ تشدد کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں مگر ابھی تک انہیں اپنے منصوبوں میں کامیابی نہیں ملی ہے کیونکہ انہیں سکھوں دلتوں اور تمام انصاف پسند اور سیکولر مزاج ہندوؤں کا تحفظ حاصل ہے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مصر اور بنگلہ دیش کی کامیاب تحریکیں دسمبر اور فروری کے درمیان وقوع پذیر ہوئیں اور ان تحریکوں کے نتیجے میں مظاہرین کوکامیابی ملی اور ان ممالک میں سیاسی تبدیلی آئی۔بھارت کے شاہین باغ کا احتجاج بھی فروری کے ماہ میں داخل ہوچکاہے۔ اور حکومت شاہین باغ کو لیکر اضطراب کا اظہار کرچکی ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مظاہروں میں شدت آگئی ہے اور ہر شہر مخالفت کی آنچ میں تپ رہاہے۔ حکومت کی طرف سے کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی خود حکومت کے لئے خود کشی کے متراد ف ہوگی۔عوام این آر سی اور سی اے اے کو کسی بھی حال میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ قوانین انہیں ڈٹنشن کیمپوں میں بھیجنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اب تک اکتیس افراد ان مظاہروں میں شہید ہوچکے ہیں مگر عوام پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
خواتین کے ذریعے چلائے جارہے ان مظاہروں کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ خواتین کا مزاج سیاسی نہیں ہوتا۔ وہ خلوص کے ساتھ ان تحریکوں میں صرف اس لئے شامل ہورہی ہیں کہ انہیں یہ خوف ہے کہ یہ قوانین ان کے بچوں کے مستقبل کو تباہ کردینگے اور انہیں غلاموں کی طرح ذلت کی زندگی گزارنی ہوگی۔ عورت اپنے اوپر ہر ظلم اور ہر تکلیف برداشت کرسکتی ہے مگر اپنے بچوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شدید سردی کی مار اور حکومت کا ظلم برداشت کررہی ہے مگر اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹیاں یا بیٹے ڈٹنشن کیمپوں میں ایڑیا ں رگڑ رگڑ کر مرجائیں۔اس تحریک کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب خواتین بھی کسی تحریک میں شامل ہوجاتی ہیں تو پھر گویا پورا ملک یا معاشرہ اس تحریک میں شامل ہوجاتاہے۔ ان کے ساتھ بچے بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور جب پورا معاشرہ جب حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتو پھرحکومت کے لئے اس تحریک کو کچلنا ناممکن ہوجاتاہے اورتبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔حکومت جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک کرلے اتنا ہی اس ملک کے لئے بہتر ہے۔ ورنہ دنیا نے جابر حکمرانوں کا حشر دیکھا ہے۔ فرعون بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا اس لئے دریا برد ہوا۔ اگر وہ پیچھے ہٹ جاتا تو دریا میں غرق ہونے سے بچ جاتا۔
فرعون خود نگر کا جھکایا ہے ہم نے سر
اس شہر میں بھی کوئی خدا ہے تو بولئے (شہودعالم آفاقی)
No comments:
Post a Comment