Saturday, February 29, 2020

Where have we come today: towards Fearing God or Fearing the Evil Part of the World? یہ کہاں آ گئے ہم : خوف خدا یا خوف دنیا کی جانب ؟


غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
انسانی دنیا کی تاریخ میں دو طرح کا انسان بستا رہا ہے ایک وہ جس نے دنیا کا خوف رکھا اور دوسرا وہ جس نے خدا کا خوف رکھا ۔آپ اگر غور وفکر کی نظر رکھتے ہیں تو تھوڑا عقل وقلب کی بھینی ٹھنڈی روشنی میں اپنی باطنی نگاہ کا دروازہ کھولیے اور دیکھیے کہ دنیا کے خوف اور خدا کے خوف میں بہت بڑا فرق ہے ۔معاف کیجیے گا یہ دو تقسیم ایک نکتہ آپ کے پیش نظر رکھنے کی خاطر کیا ہے  کہ دنیا کے خوف سے اگر ہماری مراد دنیا میں بسنے والی شیطانی خواہشات اور غیر انسانی افعال وکردار ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنہیں خواہشات اور جھوٹی اور فریبی بلکہ فانی زندگی  کی تاریک فضاوں کے گرد ونواح کے تباہ وبرباد ہو جانے کا خوف تھا جن کے فکر وغم نے انہیں  اس قدر اندھا بنا دیا کہ  حق گوئی ، انسانی فرائض وواجبات اور حقیقی بندگی اور محبت وسلامتی کا آستانہ جلتا بھی نہ دکھا ۔  
 اور دوسری طرف اگر خوف خدا سے مراد ہماری یہ ہو کہ اگر ہم سے کوئی گناہ ہو جائے تو اگرچہ ہمارا خدا ہماری توبہ پر مغفرت دینے والا ہے لیکن کیا ہم اس کا محاسبہ نہ کریں کہ آخر ہم اپنے گناہوں کو لیکر کس منھ  روز حشر  بارگاہ خداوندی میں کھڑے ہوں گے ۔تو کیا اب بھی ہم پر یہ واجب نہیں بنتا کہ ہم اپنے گناہوں سے فورا توبہ واستغفار پڑھیں اور پھر دوبارہ گناہوں کی طرف نہ لوٹنے کی توفیق اپنے رب کریم کی بارگاہ سے حاصل کریں۔
ہر وہ چیز جسے ہمارے رب کریم نے ، ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے گناہ بتایا وہ یقینا ہمارے لیے گناہ ہے۔لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ وہ سارے گناہ کیا ہیں ؟ حرام ، مکروہ تحریمہ ، ناجائز  اور غیر شرعی افعال وکردار  کے علاوہ ترک فرائض وواجبات بھی گناہوں کی لسٹ میں شامل ہیں۔
تمام گناہوں کی لسٹ نہ دے کر صرف چند کی طرف تحریری اشارہ کروں گا ، مثلا ہم مومن اللہ تعالی پر ، اس کے تمام انبیاء پر ، تمام رسولوں پر ، فرشتوں پر ، اس کی تمام کتابوں پر ، بعث بعد الموت ، قیامت  اور حساب وکتاب کے دن وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں ، اور ہم میں سے ہر ایک ایمان کی حلاوت  پانے کا دعوی کرتا ہے لیکن ہمارا یہ کیسا ایمان ہے جس میں محبت خدا نہیں ، جس میں محبت رسول نہیں ،!! محبت خدا کیا چیز ہے ؟ محبت خدا کا مطلب ہے خدا کی عبادت واطاعت کی جائے ، اس کی تسبیحات بیان کی جائے ، اس کے نام کا قلبی اور لسانی  ورد کیا جائے ، بعض مومنوں کی محبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے ذاتی کاموں میں بھی رضائے الہی کی آرزو وتمنا رکھتے ، حلال وحرام کا فرق یاد رکھتے ، جھوٹ ، بے ایمانی ، دغابازی ، چوری ، چغلی ، دھوکہ ،  غیبت ، برائی ، طعنہ زنی ، وعدہ خلافی ، گالی گلوج ، حق تلفی ، ظلم وستم ، بے حیائی ، ذاتی عناد وتعصب ، اور انسانی نفرت  وغیرہ جیسے اعمال سیئہ سے بچتے رہنے کا خصوصی خیال رکھتے ۔لیکن آج کی اس تیز رفتار  بیزی دنیا میں کسے اپنے رب کریم سے اس قدر محبت کی توفیق ہو؟ ہم میں سے اکثر  پر شیطانی خواہشات اس قدر غالب ہے کہ ہمیں قلب کی صفائی کا موقع نہ ملنے کا بہانہ  دیتا ہے اورپھر خواب غفلت میں تھپکیاں دیتا سلاتا ہے ۔اتنے گناہ گار ہو گئے ،ہمارا قلب اتنا سیاہ ہو گیا کہ  بارگاہ خداوندی میں نہ تڑپتا ، نہ  روتا ، نہ سسکتا ، اورنہ  سجدوں کی لذت لیتا ہے ۔آخر کس زبان سے آج کا مومن یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کے دل میں رب کریم کی محبت ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا حال کیا ہے ؟ غیر مسلموں سے حسن سلوک تو دور خود مسلمان آپسی رنجشوں میں اس قدر الجھتا ہے کہ بات قتل وغارت گری  تک آجا تی ہے ۔ایک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کی زمین ہڑپ لیتا ہے ، ناجائز قبضہ جتاتا ہے ، حق تلفی کرتا ہے ، اسے قتل کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ، اس کے خاندان کو تباہ وبرباد کرنے کا تعویذ تک بنا لیتا ہے ، گاوں، قصبہ ، دیہات ، شہر ، کوئی جگہ اس برائی سے محفوظ نہیں ۔ماں باپ کو ستایا جاتا ہے ، کہیں اولاد نافرمان ہوتی ہے تو کہیں والدین  اپنے بچوں کی دینی وروحانی تعلیم کی تربیت نہیں دیتے ،آپسی  لین دین کے معاملات بھی درست  نہیں رکھتے ، طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتا ہے ،  میاں بیوی کا ایک دوسرے کے تئیں حق تلفی کرنا ، کسی کو عالم دین سے نفرت ہے  تو کسی ملاجی کو عوام سے نفرت ، کسی کو سوشل میڈیا پر صرف بزرگوں کی توہین میں مزہ آتا ہے ، کسی کو پارٹی بندی کرنے میں مزہ آتا ہے ، کسی کو شہرت کمانے کے لیے دینی پرچار کا ٹائٹل ہی نظر آتا ہے ، کسی کو مال کے مطابق مسئلہ بتانے میں مزہ آتا ہے، کسی کو دستار بندی لیکر صرف دنیا کمانا اچھا لگتا ہے ، کوئی تنقید برائے طعن کو موضوعی اور معروضی مطالعہ کا نام دیتا ہے ، تو کوئی کچھ تو کچھ ۔گویا دنیامیں بسنے والی شیطانی خواہشات اس قدر غالب آگئی ہے کہ اب اسے چھن جانے کا خوف ہو گیا ہے ۔اسی  خوف کو ہم نے دنیا کے خوف سے شروع میں تعبیر کیا۔
اگر دنیا کے خوف کے نتائج پر غور  کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف مایوسی ہے ، خوف ودہشت ہے ، چین وسکون نہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کا خوف رکھنے والا انسان کروڑپتی ہونے کے باوجود امن وسکون نہیں پاتا ، اس کا دل کبھی مطمئن نہیں رہتا ، ایک عجیب طرح کی بے چینی ہوتی ہے ، جسے وہ سمجھ ہی نہیں پاتا تو بیاں کیسے کرے  اور اس کا علاج کیسے تلاش کرے؟ یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ سامان راحت کا ڈھیر لگانا اور بات ہے ۔۔۔۔لیکن راحت حاصل کرنا اور بات ۔۔۔یہ ضروری نہیں  کہ ایک انسان کے پاس سامان راحت ہو تو اس کے پاس راحت بھی ہوگا ۔۔۔دنیا میں ایسے لوگ اکثر ملتے ہیں جن کے پاس سامان راحت کا ڈھیر ہے مگر راحت نہیں ، چین نہیں ، اطمینان قلب نہیں ۔کچھ بے چین لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ   دوسروں کے امن وسکون  کو تباہ وبرباد کرنے سے انہیں چین مل جائے گا لیکن انہیں پھر بھی اطمینان وچین نہیں ملتا  ،  معاملہ خواہ دہشت گردی تک پہنچ جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
بعض حالات ایسے بھی ہیں جہاں دنیا کا خوف رکھتے ہوئے انسان اچھا کام کرنے کی سعی کرتا ہے لیکن وہاں ریاکاری ، فریبی ، دکھاوا ، بس یوں کہہ لیجیے ظاہری اچھائی اور باطنی برائی کا مجمع ہو جاتا ہے ۔ایسے میں اس کا دکھاوا ، اس کی ظاہری نیکی اسے ہرگز مفید نہیں ۔اگرچہ کوئی عمل بظاہر نیکی کا ہو لیکن خلوص سے خالی ہو تو اس عمل کو ریاکاری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عند اللہ مقبول نہیں ۔اس کی کئی مثالیں قرآن مجید میں ہمیں ملتی ہیں ۔مثلا کسی نے کوئی صدقہ لوگوں کے ساتھ ریاکاری کرنے کے لیے ادا کیا ، ایسا شخص اس انسان کی طرح ہو جاتا ہے جس نے پوری زندگی مال جمع کیا اور اس نے ایک باغ بنایا ، پھر بڑھاپے میں وہ اس امید کے ساتھ ہے کہ یہ باغ اس کے کام آئے گا ، اس کی حالت یوں ہے کہ اس کی اولاد ناتواں اور کمزور ہیں اس طرح کہ کمانے پر قادر نہیں ، والدین کا سہارا بننے کی استطاعت نہیں رکھتے ، اب وہ بوڑھا شخص ضرورت وحاجت میں اس باغ کی طرح روانہ ہوتا ہے لیکن اچانک ایک زبردست آندھی آجاتی ہے جس میں آگ ہی آگ ہے ، جس سے اس کا باغ پورا جل جاتا ہے ۔یہی حال ان ریاکار لوگوں کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں ان کی ریاکاری پر مبنی اعمال حسنہ کام آئے گی لیکن جب حساب وکتاب کا دن آتا ہے تو وہ اعمال حسنہ اس کے کسی کام کا نہیں ۔
دوسری جانب خوف خدا جو ہمارے ظاہر وباطن دونوں کی اصلاح کا تقاضہ کرتا ہے ۔ہمارے اندر خلوص پیدا کرتا ہے ۔جس سے ہمیں نہ صرف قرب خداوندی حاصل ہوتی ہے بلکہ انسانی دلوں میں بھی عزت ووقار ملتی ہے ۔خوف خدا سے ہمیں حسن عمل کو انجام دینے اور برے عمل سے باز رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔خشیت الہی جب دل میں ہو تو انسان تائب ہوتا ہے ، گناہوں پر نادم ہوتا ہے ، بارگاہ الہی میں سجدوں کی لذت لیتا ہے،  محبت خدا کی لذت پیدا ہوتی ہے ، محبت خدا میں آنسو بہانا نصیب ہوتا ہے ، یہ وہ طریقہ ہے جسے اختیار کرکے سلف صالحین ، اولیاومقربین نے معرفت خداوندی حاصل کی ، دنیا وآخرت کا فرق معلوم کیا، اچھائی وبرائی میں واضح تمییز حاصل کی ،  پھر ان کے دل نرم ہو گئے ، ان کی فکر بلند ہو گئی،  ان کے قلوب نے اطیمان وسکون حاصل کر لیا ، وہ مصائب وآلام پر گھبرائے نہیں ، شیطانی خواہشات کے گم ہو جانے پر پریشان نہ ہوئے ، وہ ہر حال میں راہ مستقیم پر قائم رہے ، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے بہت پیارے انداز میں فرمایا : واذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون ، یعنی جب انہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں تو اسی کی طرف پلٹنا ہے ۔
لیکن آج ہمارا حال ہے کوئی عارضی اور وقتی مصیبت بھی آتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں ، اس قدر کہ مانوں ہماری دنیا تباہ وبرباد ہو گئی ہو ۔مصائب وآلام کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ تو آزمائش کے لیے ہوتے ہیں جن کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے : ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین ۔۔یعنی ہم تمہیں آزمائیں گے تھوڑا خود دیکر ، تھوڑی بھوک دیکر ، مالوں کو کم کرکے ، جانوں کو کم کرکے  اور رزق کو کم کرکے، لیکن (اے محبوب ) بشارت دے دیجیے ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہیں ۔
اسی طرح کچھ مصائب ایسے بھی ہیں جو ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔یہ عذاب کی شکل میں ہوتی ہے ۔اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔کبھی یہ عذاب ظالم بادشاہ کی شکل میں ہوتا ہے کہ جب قوم کے اندر برائیوں کا سلسلہ جنم لیتا ہے تو اللہ تعالی اس قوم پر ظالم بادشاہ کو مسلط کر دیتا ہے لیکن جب پھر وہی قوم توبہ کرکے عند اللہ مغفرت طلب کرتی ہے اور اللہ اپنی رحمت کا ارادہ فرمائے تو کبھی ایسا ہوتا ہے اسی ظالم بادشاہ کے قلب کو نرم بنا دیتا ہے یا کبھی اس ظالم بادشاہ پر ایک ظالم کو مسلط کر دیتا ہے  اور پھر اس سے مقصود اس تائب قوم کی حفاظت مقصود ہوتی ہے ۔
ضرورت ہے کہ ہم غور وفکر کریں ، توبہ واستغفار پڑھتے رہیں ، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں ،پھر دیکھیں ان شاء اللہ تمام عارضی پریشانیاں دور ہو جائیں گی ۔
اللہ تعالی تمام اہل وطن پر اپنی رحمت جاری رکھے  ۔  

No comments:

Post a Comment