Thursday, February 27, 2020

Waris Pathan's Communal Statement Was Apparently A Calculated Move, Not An Unconscious Act نفرت کی سیاست اور وارث پٹھان کا بیان


سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
انجمن اتحادالمسلمین کے لیڈروارث پٹھان کے اس بیان پر کہ پندرہ کروڑ مسلمان ایک سو کروڑ ہندوؤں پر بھاری ہیں ایک تنازع کھڑا ہوگیاہے اور ان کے خلاف دو فرقوں میں نفرت پھیلانے اور فساد بھڑکانے کی کوشش کے لئے کیس درج کرلیاگیاہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیاہے مگر اس سے جو نقصان ہونا تھا ہوچکاہے۔ انجمن کا پچھلا ریکارڈیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ  اتحادالمسلمین  کے لیڈر کا یہ اقدام غیر شعوری تھا اور اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد کارفرما نہیں تھا۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بھارت میں سیاسی پارٹیاں سیاسی فائدے کے لئے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلتی ہیں۔ اور اس میں ہندو یا مسلم  لیڈرکی کوئی تفریق نہیں ہے۔انجمن ایک طویل عرصے سے اس قسم کی سیاست کر رہی ہے۔ وارث پٹھان انجمن کے پہلے لیڈر نہیں ہیں جنہوں نے اس طرح کا فرقہ وارانہ بیان دیاہو۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند ہی برس قبل انجمن کے صدر اسدالدین اویسی کے چھوٹے بھائی اکبرالدین اویسی نے بھی پوری ہندو قوم کے خلاف ایساہی قابل اعتراض بیان دیاتھا جس پر ان  کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی تھی۔ایک ایسے وقت میں جب سی اے اے اوراین آر سی کے پس منظر میں دلت۔ مسلم اتحاد قائم ہورہاہے اور صدیوں پرانے ہندوستانی سماجی نظام میں انقلابی تبدیلیانں رونما ہورہی ہے اور دلت مسلم اتحاد ایک نئی سیاسی قوت بن کر ابھررہا ہے وارث پٹھان کا بیان ایک غیر شعوری عمل نہیں ہوسکتا۔دلت مسلم اتحاد سے انجمن اوربی جے پی دونوں کے ووٹ بینک کو خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں پارٹیوں نے اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کے لئے فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کو تیز کردیاہے۔ دلیّ انتخابات سے پہلے اس سیاست کا نظارہ کیاجاچکاہے۔ وارث پٹھان کا بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وارث پارٹی کے سابق ایم ایل اے ہیں اور ایک  وکیل ہیں اس لئے  یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک پورے فرقے کو چیلنج کرنے والا ان کابیان غیرشعوری نہیں بلکہ منصوبہ بند تھا۔
ان کے بیان کے  محرک وہ حالات ہیں جو گزشتہ ایک ماہ کے اندر ملک میں اور خاص طور سے دکن میں پیداہوئے ہیں۔ گزشتہ ۵ جنوری کو  حیدرآاباد کی چالیس غیر سیاسی تنظیموں کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملین مارچ کی پکار دی گئی تھی  اور تقریبا ً دولاکھ افراد نے بلا تفریق مذہب  حیدرآباد کے دھرنا چوک پر جمع ہوکر احتجاج کیاتھا۔ اتنابڑا غیر سیاسی اجتماع حیدرآباد کی تاریخ میں غالباپہلے کبھی نہیں ہواتھا اور وہ بھی  وہاں کی سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کی غیر موجودگی میں۔ اس پورے اجتماع کو وہاں کی ایک سماجی شخصیت مشتاق ملک نے قیادت دی تھی۔ اس اجتماع کے بعد کرناٹک اور تمل ناڈو میں بھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں  غیرسیاسی بینر تلے جمع ہوکر ان سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ یہ صورت حال انجمن اتحادالمسلمین کے قائدین کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ وہ اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ دکن میں مسلمانوں کے وہی قائد ہیں اور مسلمانوں پر ان کی اجارہ داری ہے۔ دلت۔ مسلم اتحاد سے ان کی سیاسی ریاضی بگڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔وارث پٹھان کے بیان کو اسی تناظر میں سمجھا جاسکتاہے۔ ہندو مسلم یا دلت مسلم اتحاد نہ تو بی جے پی کے لئے خوش آئند ہے اور نہ انجمن اتحادالمسلمین کے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ دلت مسلم یا ہندو مسلم اتحاد مضبوط ہو۔یہ اتحاد ملک بھر میں قائم ہونے والے شاہین باغوں میں مزید مضبوط ہواہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ انجمن کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کبھی ایسے فرقہ پرستانہ بیان نہیں دیتے بلکہ ان کے جونئیر لیڈران ہی اس طرح کے بیان دیتے ہیں۔ اگر پوری ہندو قوم کو چیلنج کرنے والا بیان ان کی پارٹی کی پالیسی کا حصہ نہ ہوتا تو اکبر الدین اویسی کے بیان کے بعد ہی پارٹی نے اس طرح کے بیان دینے پر پابندی لگادی ہوتی۔ ایک بار پھر ایک پارٹی لیڈر کے ذریعہ اسی طرح کا بیان دیاجانا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ یہ بیان ایک حکمت عملی کے تحت دلوایاگیا۔ تاکہ دکن میں جو دلت مسلم اتحاد قائم ہورہا ہے اسے توڑا جاسکے اور ہندوؤں کو مسلمانوں سے متنفر کیاجاسکے۔ اس بیان سے ایک بار پھر عوام کے اندر پھیلے ہوئے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ اسدالدین اویسی کو درپردہ بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے سیاسی ایجنٖڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔وارث پٹھان کے بیان سے بی جے پی کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ اس کے لیڈروں کے مسلمانوں کے خلاف بیانات کو اس سے جواز ملے گا اور ہندو اور مسلمان ووٹوں کی تقسیم مزید بٖڑھے گی  جو دونوں پارٹیوں کے لئے منفعت بخش ہوگی۔
اس بیان سے وارث پٹھان کی سیاسی بصیرت بھی شک و شبہ میں پڑجاتی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر پورے بھارت کے لوگ سبھی ہندو ہیں۔ اس طرح وہ ملک کے ایک سو افراد کو ہندو قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریہ آر ایس ایس کا ہے کہ جو مسلمان نہیں ہے وہ ہندو ہے بلکہ اس کے مطابق مسلمان بھی ہندو ہیں۔جبکہ دلت لیڈر وامن میشرام صاحب  بھارت کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ دلت اور آدی واسی قبائل  ہندو نہیں ہیں۔ انکی اپنی الگ مذہبی شناخت  ہے۔مگر وارث پٹھان آر ایس ایس کے نظرئیے میں یقین رکھتے ہیں یا جانے انجانے اس نظرئیے کو فروغ دے رہے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک میں ٰ مسلمانوں کے ساتھ زیادہ تعداد میں دلت ہی ہیں اور انجمن کے سیاسی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لئے دلتوں کو مسلمانوں سے الگ کرنا ضروری ہے۔ اسی لئے وہ اتنا سخت فرقہ پرستانہ بیان دیتے ہیں اور بعد میں اسدالدین اویسی صاحب رسمی طور پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بولنے سے منع کردیتے ہیں۔لیکن اب وقت بدل چکاہے۔ بھارت کے ہندو اور مسلم اس مذہبی منافرت کی سیاست سے بیزاری کا عملی اظہار کرنے لگے ہیں۔ جھارکھنڈاور دلی کے انتخابات اس عملی اظہار کے حالیہ نمونے ہیں۔اس حقیقت کو گری راج کشور اور وارث پٹھان جیسے نا عاقبت اندیش لیڈران جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا ان کے لئے بہتر ہے۔

No comments:

Post a Comment