سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے۔ یہ نہ صرف احکام الہی کا مجمویہ ہے بلکہ گوناگوں انسانی و سماجی مسائل پر بھی کڑی نگاہ رکھتاہے اور ان سے متعلق واضح موقف کا اظہار کرتاہے۔ قرآن انسانوں کی اخلاقی وروحانی تربیت ہی نہیں کرتا بلکہ ا س سماج اور ماحول کے متعلق بھی فکر مند رہتاہے جس میں انسان پرورش پاتاہے کیونکہ ماحول اور انسانی فطرت و اخلاقیات ایک دوسرے پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اخلاقی مسائل کے ساتھ عصری سماجی مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں۔
قرآن جگہ جگہ سائنسی حقائق کا ذکر کرتاہے اور انسانوں کو کائنات میں پوشیدہ سائنسی اسرار کو سمجھنے کے لئے کوشاں رہنے کی تلقین کرتاہے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ انسانوں کے ذریعہ سائنسی طاقت کے بے جا استعمال اور مادی آسائشوں کے حصول کی کوششوں کے نتیجے میں پیداہونے والے فضا ئی آلودگی کو قرآن نظرانداز کرجاتا۔ لہذا، قرآن میں سائنسی ایجادات و انکشافات کے نتیجے میں رونما ہونے والی فضائی آلودگی اور پیچیدہ انسانی مسائل پر بھی ذکر ملتاہے۔ فضائی آلودگی کے ذیل میں سورہ الروم کی آیت نمبر 41ملاحظہ ہو:
”پھیل پڑی ہے خرابی خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی ہے چکھانا چاہئے ان کو کچھ مزہ ان کے کام کا تاکہ وہ پھر آئیں۔“
قرآن کائنات میں چھپی اور آشکار خدائی حکمت کا مشاہدہ کرنے کی تلقین کرتا اور زمین پر گھوم پھر کر تخلیق کائنات پر غور وفکر کرنے کی تعلیم دیتاہے مگر اس کے پیچھے اس کا مقصد قدرت الہی کا عرفان حاصل کرناہے۔ اس کی مدد سے مادی دولت اور آسائشیں حاصل کرنے کے چکر میں کائنات کے تواز کو بگاڑنا نہیں۔
”تو کہہ ملک میں پھرو پھر دیکھو کیونکر شروع کیاہے پیدائش کو پھر اللہ اٹھائیگا پچھلا اٹھان۔“ (العنکبوت: ۰۲)
مگر انسان نے دولت، دنیاوی طاقت اور آرام و آسائش حاصل کرنے کے لئے سائنسی علم کا بے محابا استعمال شروع کردیا جس کے نتیجے میں خشکی و تری میں خرابی یا آلودگی پھیل گئی۔ بے مہار اور غیر منظم صنعتی ترقی نے آبی و فضائی آلودگی جیسے سنگین مسائل پیداکردئیے ہیں جس سے خشکی پہ موجود حیوانات طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ آبی آلودگی نے دریاؤں اور سمندروں میں رہنے والے جانوروں کی بقا کا مسئلہ پیدا کردیاہے۔ یہ نہیں آلودہ پانی سے انسانوں کی صحت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ قرآن واضح الفاظ میں ٰ کہتاہے کہ یہ خرابی خود انسانوں کے ہاتھ کی کمائی ہے یعنی آلودگی کا مسئلہ خود انسانوں کا پیداکردہ ہے۔ اور انہیں اپنے کئے کا پھل خود ہی چکھنا ہے تاکہ اسے احساس ہو اور فطری اور سادہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔
سائنسی ترقی سے پیداہونے والے ایک اور انسانی اور اخلاقی مسئلے کی طرف قرآن سورہ النساء کی آیت نمبر ۹۱۱ میٰں اشارہ کرتاہے:
”اور کہا شیطان نے کہ میں البتہ لوں گا تیرے بندوں میں سے حصہ مقرر، اور ان کو بہکاؤنگا اور ان کو امیدیں دلاؤں گا اور ان کو سکھلاؤں گا کہ چیریں جانوروں کے کان اور ان کو سکھلاؤں گا کہ بدلیں صورتیں بنائی ہوئی اللہ کی۔“
شیطان خدا کے دربار سے ذلیل ہوکر نکلتے وقت خدا سے کہتاہے کہ میں انسانوں کو سکھاؤں گا کہ وہ جانوروں کے کان چیریں اور تیری بنائی ہوئی صورتوں کی شکلیں بگاڑیں۔ اول الذکر آیت میں انسانوں کے ذریعہ فطرت میں بگاڑ یعنی آلودگی پیداکئے جانے کا ذکرہے جبکہ موخرالذکر میں انسانوں کے ذریعہ جانوروں اور انسانوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلی یا بگاڑ کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم زمانے میں بت پرست اپنے معبودوں کے نام اپنے جانوروں کو وقف کردیتے تھے اور ایسے جانوروں کی شناخت کے لئے ان کے کان چیردیتے تھے جو کہ خدا کی بنائی ہوئی چیز میں بگاڑ نے کے مترادف تھا۔ گویا انسانوں یا حیوانوں کی جسمانی ساخت یا چہرہ میں بگاڑ پیداکردینا، اسے سائنسی علم کی مدد سے تبدیل کردینا یا وقتی طور پر ہی صورت بدل لینا قرآن کے نزدیک شیطانی عمل ہے اور اسی لئے غیر اسلامی ہے۔ خدا اس بات کو سخت ناپسند کرتاہے کہ انسان اس کی بنائی ہوئی شکلوں کو بگاڑے یا اس میں تبدیلی کرے۔ مگر طالبان جیسے انتہاپسند گروپ افغانستان میں قصوروار عورتوں کے ناک اور کان کاٹ لیتے ہیں۔ قرآن جہاں جانوروں کی کان چیرنے کو بھی غیر اسلامی قراردیتاہے وہاں یہ خود کو اسلامی شریعت کے ترجمان کہنے والے وحشی قبائلی عورتوں کے ناک اور کان کاٹنے کو اسلامی عمل سمجھتے ہیں جبکہ قرآن کے نزدیک یہ شیطانی عمل ہے۔
اسی طرح مغرب نے سرجیکل سائنس میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب وہ سرجری کے ذریعے سے انسانوں کے چہرے کی پوری ساخت کو ہی بدلنے پر قادر ہے اور اس سلسلے میں تجربے بھی ہوچکے ہیں۔ اعضاء کی ساخت میں تبدیلی تو اب مغرب میں معمولی بات ہے۔ طبی ضرورتوں کے تحت جیسے حادثات یا بیماری کے نتیجے میں چہرے یا اعضاء میں آنے والے بگاڑ کو درست کرنے کی غرض سے سرجری کا تو جواز ہے مگر شوقیہ طور پر چہرے کے خد وخال بدلنا قرآن کے نزدیک ناجائز ہے ا ور خدا کے تخلیقی نظام میں بے جا مداخلت ہے۔ اس سے بہت سے اخلاقی، سماجی اور قانونی مسائل پیداہوسکتے ہیں اور جرائم کے ارتکاب میں معاون ہوسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment