غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
قسط ثالث
نہی عن الافعال الحسیہ اور نہی عن الافعال الشرعیہ کے معنی ومفہوم کے بعد اب ان کے احکام اور جزئیات وتفصیلات کو مثالوں کے ساتھ پیش کرنا اپنے موضوع کے لیے ضروری سمجھتا ہوں ۔
نہی عن الافعال الحسیہ کی مثالیں جیسے زنا ، شراب نوشی ، جھوٹ بولنا ، ظلم کرنا وغیرہ جرائم سے قرآن وسنت میں نہی وارد ہوئی ہے اسی لیے ان سے نہی ، نہی عن الافعال الحسیہ سے ہوگی ۔ نہی عن الافعال الحسیہ کا حکم یہ ہے کہ منہی عنہ (یعنی وہ چیز جس کو کرنے سے شریعت نے روکا ہو) بعینہ وہ چیز ہوگی جس پر نہی وارد ہوئی ہے ، یعنی جس فعل سے نہی کی گئی ہے بعینہ اسی فعل سے روکنا مقصود ہ اور جب اسی فعل سے روکنا مقصود ہوتا ہے تو اس فعل کی ذات قبیح ہوگی ، لہذا اس صورت میں اس فعل کو قبیح لعینہ کہا جائے گا ۔اب جو چیز قبیح لعینہ (یعنی جو اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح ہو) ہوگی وہ فعل کبھی بھی مشروع (جائز) نہیں ہوگا، مثلا زنا ، شراب نوشی، ظلم ودہشت گردی ، کسی آزاد انسان کی خرید وفروخت کرنا وغیرہ ایسے افعال حسیہ ہیں جو اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح ہیں، یعنی اس کی ذات میں برائی ہوتی ہے جو برائی اس سے کبھی جدا نہیں ہو سکتی ، لہذا کسی بھی صورت میں یہ افعال اصلا مشروع نہیں ہوں گے۔
تاہم اصولیین نے افعال حسیہ کے حکم میں اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ اگر کوئی ایسی دلیل آجائے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ فعل حسی بھی ذات کے اعتبار سے قبیح نہیں بلکہ غیر کی وجہ سے قبیح ہے یعنی دلیل ایسی ہو جو یہ بتائے کہ وہ فعل حسی ذات کے اعتبار سے مشروع ہے مگر وصف کے لحاظ سے غیر مشروع ہے ، تو اس فعل کو بھی قبیح لغیرہ کہا جائے گا ، مثلا حالت حیض میں شوہر کا بیوی سے وطی کرنا ، تو یہ استثنا کی صورت ہے جس میں وطی کرنا ایسا فعل حسی ہے جو قرآن کی دلیل (قل ھو اذی) کی وجہ سے قیبح لغیرہ ثابت ہے نہ کہ قبیح لعینہ۔
نہی عن الافعال الشرعیہ کا معنی ومفہوم پہلے بیان ہو چکا ۔ عید الاضحی میں روزہ رکھنا ، اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنا ، ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچنا ، وغیرہ ایسے افعال شرعیہ ہیں جن کو کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ، اسی وجہ سے ان سے نہی کو نہی عن الافعال الشرعیہ کہا جاتا ہے ۔نہی عن الافعال الشرعیہ کا حکم یہ ہے کہ منہی عنہ (یعنی جس چیز سے نہی کے ذریعے روکا جائے) اس چیز کے علاوہ ہوتا ہے جس کی طرف نہی کی نسبت کی گئی ہے تو وہ منہی عنہ حسن لنفسہ یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اچھا ہوتا ہے اور قبیح لغیرہ یعنی کسی غیر کی وجہ سے قبیح (برا) ہوتا ہے ، لہذا ایسے فعل کو کرنے والا ایسے حرام کام کا کرنے والا (مرتکب) ہوتا ہے جو کسی غیر چیز کی وجہ سے حرام ہے لیکن اپنی ذات کے اعتبار سے حرام نہیں۔جیسے روزہ رکھنا ایک فعل شرعی ہے جو اپنی ذات میں بہت مبارک فعل ہے مگر ایام نحر میں روزہ رکھنا اللہ تعالی کی میزبانی کو ٹھکرانے کے مترادف ہے ، اور اسی طرح نماز بھی ایک فعل شرعی ہے جو اپنی ذات میں عبادت ہے ، ایک مبارک عمل ہے، مگر مکروہ اوقات کی وجہ سے ممنوع ہے تو برائی نماز کی ذات میں نہیں بلکہ اس کے غیر میں یعنی مکروہ وقت میں ہے جس کی وجہ سے اس وقت میں نماز ممنوع ہے ، یہی وجہ ہے کہ نہی عن الافعال الشرعیہ اپنی اصل میں ، اپنی ذات میں ہمیشہ اچھی ہوتی ہیں لیکن اپنے غیر کی وجہ سے ممنوع ہوتی ہیں، تو معلوم یہ ہوا کہ جس سبب کی وجہ سے افعال شرعیہ ممنوع ہوئی ہیں اگر وہ سبب جدا ہو جائے تو نہی بھی اٹھ جائے گی مگر افعال حسیہ سے نہی کبھی جدا نہیں ہو سکتی ۔
نہی عن الافعال الشرعیہ کے مسئلے میں مفہوم یہ نکلتا ہے کہ افعال شرعیہ سے نہی در حقیقت ان افعال کے فی ذاتہ جواز ومشروعیت کی سند ہوتی ہے ۔تو اس صورت میں شریعت کا یہ کہہ کر نہی وارد کرنا کہ ‘‘لا تصوموا في هذه الأيام فانھا ایام اکل وشرب ’’ یعنی ان دنوں میں روزہ نہ رکھنا کیوں کہ یہ ایام کھانے اور پینے کے ہیں ’’ اس بات کی طرف مشیر ہے کہ روزہ جیسی پسندیدہ عبادت کو ایام نحر میں بجا لاکر اس کے حسن وخوبصورتی کو داغدار نہ کرو ۔ یونہی تین اوقات مکروہہ (طلوع شمس ، استواء شمس اور غروب شمس کے وقت)میں شریعت کا نماز جیسی بہترین عبادت کو نہ پڑھنے کا حکم دینا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ نماز جیسی اعلی چیز کو مکروہ وقت میں ملوث کرکے اس کی قدر وقیمت نہ گھٹاو۔
افعال شرعیہ پر نہی وارد ہونے کے بعد ان افعال کی مشروعیت باقی رہتی ہے یا نہیں ؟ اس میں احناف اور شوافع کے درمیان اختلاف ہے ۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک افعال شرعیہ سے نہی وارد ہونے کے بعد وہ افعال بالکل مشروع نہیں رہتے یعنی ذات اور وصف دونوں اعتبار سے غیر مشروع رہتے ہیں گویا وہ اسی طرح ہو جاتے ہیں جس طرح افعال حسیہ سے نہی وارد ہونے کے بعد وہ افعال بالکل مشروع نہیں رہتے ۔اس کے بر عکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک افعال حسیہ سے نہی وارد ہونے کے بعد وہ افعال حسیہ تو بالکل مشروع نہیں رہتے لیکن افعال شرعیہ سے نہی وارد ہونے کے بعد بھی ان افعال کی مشروعیت باقی رہتی ہے اور ان کا کرنے والا حسن لذاتہ اور قبیح لغیرہ کا ارتکاب کرنے والا شمار ہوتا ہے ۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ افعال شرعیہ جس طرح نہی سے پہلے مشروع تھے اس طرح نہی کے بعد بھی مشروع رہیں گے، البتہ جو نہی وارد ہوئی وہ ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ غیر کی وجہ سے ہے تو غیر کی وجہ سے ہی اس مشروع فعل سے روکنا مقصود ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ افعال شرعیہ نہی کے بعد بھی اگر بالکل مشروع نہ رہیں تو یہ فعل شرعی بندے کی قدرت اور اختیار میں بھی نہ رہے گا اور بندہ اس فعل شرعی کو کرنے سے عاجز ہو جائے گا اور اس صورت میں فعل شرعی کی نہی عاجز کے لیے نہی ہو جائے گی اور عاجز کو منع کرناا یک فعل عبث ہے اور شریعت کی طرف فعل عبث محال ہے ۔لہذا افعال شرعیہ کا نہی کے بعد مشروع نہ رہنا محال کو مستلزم ہونے کی وجہ سے محال ہے تو بات ثابت ہو گئی کہ افعال شرعیہ نہی کے بعد اسی طرح مشروع رہیں گے جس طرح وہ نہی سے پہلے مشروع تھے۔لیکن یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ افعال شرعیہ نہی کے بعد اپنی ذات کے اعتبار سے مشروع رہتے ہیں مگر اپنے کسی وصف یا غیر کے اعتبار سے غیر مشروع رہتے ہیں اور یہ دونوں باتیں کسی ایک موقع پر جمع ہو سکتی ہیں۔
اس مضمون کی تفصیل اس طرح سمجھیں کہ اللہ تعالی انسان کو ان کاموں سے روکتا ہے یا نہی جاری فرماتا ہے جو اس انسان کے اختیار میں ہوں ۔جس چیز کا اس بندے کو اختیار اور قدرت ہی نہیں اس سے روکنا فعل عبث ہے جو اللہ تعالی کی شان کے لائق نہیں۔مثلا کسی اندھے سے کہنا کہ کسی عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو ، تو یہاں بری نظر سے دیکھنے سے روکنا یا نہی کرنا یقینا فعل عبث ہے ۔ہر کام کی قدرت وصلاحیت اس کے حال کے مطابق ہوتی ہے ، افعال حسیہ میں بندے کو قدرت واختیار یہ ہے کہ وہ حسی طور پر ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے ، مثلا حسی طور پر اسے قدرت ہے کہ وہ جھوٹ بول سکتا ہے یا زنا کر سکتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اللہ رب العزت کی نہی پر نظر کرتے ہوئے جھوٹ بولنے یا زنا کرنے سے باز رہتا ہے پھر یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے وہ اجر وثواب پاتا ہے ۔ اگر اس بندے کو کرنے یا نہ کرنے کی صلاحیت وقدرت ہی نہیں ہوتی تو کچھ ثواب بھی نہ پاتا، مثلا اندھے کو کسی عورت پر بری نظر ڈالنے سے باز رہنے کا کوئی ثواب نہیں کیونکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔اسی طرح افعال شرعیہ میں قدرت واختیار یہ ہے کہ وہ کام فی ذاتہ اس لائق ہے کہ اسے انجام دیا جائے اور وہ کام اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے مگر پھر بھی کسی خارجی وجہ سے کام سے روکا گیا ہے ۔اگر اس ذاتی حسن کا اور فی ذاتہ جواز ومشروعیت کا اعتبار ہی نہ کیا جائے تو وہ شرعی اختیار ہی ختم ہو گیا جس کی بنا پر نہی کی اتباع سے ثواب حاصل ہوتا ہے ۔لہذا اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ افعال شرعیہ پر نہی وارد ہونے کے بعد بھی ان افعال شرعیہ کا مشروع ہونا ثابت ہے مگر چونکہ کسی غیر کی وجہ سے نہی وارد ہوئی ہے لہذا اس کا ارتکاب حرام کا ارتکاب کرنا ہوگا ۔
نہی عن الافعال الشرعیہ کے متعلق اتنی باتیں جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ جہاد کا لغوی معنی ہے جہد کرنا ، کوشش کرنا ، مجاہدہ کرنا ، یعنی لغت کے اعتبار سے غور کریں تو معلوم ہوتا ہے ہر وہ کام جس میں جہد کرنی پڑتی ہے وہ جہاد ہے ،مگر شرعی اعتبار سے اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ ہر وہ کام جو فی سبیل اللہ کیے جائیں اور جس میں جہد ہو وہ جہاد ہے ، اب اس کا تعلق ہر شئ سے بنتا چلا جائے گا ، مثلا کسی نے قلم کا استعمال فی سبیل اللہ کیا یعنی اچھے کام کی طرف رغبت دلانے اور برے کاموں سے روکنے کے لیے قلم کا استعمال کیا جائے تو یہ جہاد بالقلم ہوگا، اگر یہی کام زبان کے ذریعے ہو تو جہاد باللسان ہے ، یہی کام اگر نفس کے ذریعے ہو یعنی نفس کو فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی رضا کے لیے برائیوں سے روکنے میں انسان کو جو جہد ومشقت کرنی پڑتی ہے اسی کا نام جہاد بالنفس ہے، اسی طرح دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ظلم وبربریت کے خلاف جو جنگیں تلوار سے لڑی گئیں اس میں جو جہد ومشقت کا سامنا کرنا پڑا اسی کو جہاد بالسیف نام دیا گیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ لغت کے اعتبار سے جہاد کا معنی صرف جہد کرنا معلوم ہوتا ہے لیکن شریعت کے بتانے سے جہاد کا یہ مفہوم بنا کہ فی سبیل اللہ جو جہد ومشقت کی جاتی ہے اسے بھی جہاد کہا جاتا ہے ، خواہ وہ کسی بھی اعتبار سے ہو، زبان سے ، قلم سے ، نفس وغیرہ سے۔ گویا جہاد اصطلاح شرع میں ہر وہ فعل ہے جو فی سبیل اللہ کیا جاتا ہے ۔اس مفہوم کے بعد جہاد کی مختلف اقسام کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں ، جیساکہ اوپر گزرا ، جہاد بالقلم ، جہاد بالنفس ، جہاد باللسان وغیرہ ۔
جہاں تک بات جہاد بالسیف یا جہاد بالقتال کی ہے تو اگرچہ علمائے کرام اسے شرعی فعل مانتے ہوں لیکن ان کے نزدیک جہاد کے شرائط بھی بیان ہوتے ہیں ، مثلا اسلامی اسٹیٹ کا ہونا ، حاکم کا ہونا ، حاکم کی حکومت پر مسلمانوں کا اتفاق رائے رکھنا ، ظلم وبربریت، جان ، دین ، عزت وآبرو کے تئیں فی سبیل اللہ اعلانیہ لڑنا وغیرہ شرائط سے مشروط۔
لیکن میرے ذہن میں ایک سوال جو نہی عن الافعال الشرعیہ کے ضمن میں آیا وہ یہ کہ جب جہاد میں اعتدا یعنی حد سے زیادہ بڑھنا ، مثلا بے گناہوں کا قتل عام کرنا ، فساد برپا کرنا ، عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام جیسے افعال ممنوعہ پایا جائے یا جہاد کے شرائط کے مفقود کی وجہ سے فساد کا سبب ہونا وغیرہ افعال پا لیے جائیں تو اگرچہ جہاد بالقتال ظلم کے خلاف ایک فعل شرعی ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے حسن ہے، اچھی چیز ہے لیکن اپنے غیر کے اعتبار سے یعنی دوسرے اسباب واوصاف کے اعتبار سے قبیح ہوں گے یا نہیں؟ جس طرح اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا تاکہ نماز جیسی بہترین عبادت کی قدر وقیمت گھٹانے کا کسی موقعہ نہ مل سکے ، جس طرح روزہ جیسی عظیم عبادت کو ایام نحر میں رکھنے سے باز رکھا گیا ، اسی طرح جہاد جیسی بہترین چیز جس کا تعلق فساد فی الارض روکنا ہے ، ظلم وبربریت کا خاتمہ کرنا ہے لیکن جہاد کا استعمال دہشت گردی کو انجام دینے کے لیے کرنا یقینا قبیح فعل ہے ، جہاد کا استعمال فساد فی الارض کرنے کے لیے کرنا یقینا قبیح فعل ہے ، بے گناہوں کا قتل عام کرنے کے لیے جہاد جیسے فعل شرعی کا ارتکاب کرنا یقینا قبیح فعل ہے۔ نہی عن الافعال الشرعیہ کی بحث پر غور کرتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ موجودہ دور کے دہشت گرد کا دعوی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ جہاد بالقتال کر رہے ہیں حالانکہ وہ شریعت کے ذریعے حرام کیے افعال کو بھی انجام دے رہے ہیں مثلا ، اعتدا کرنا ، حد سے زیادہ بڑھنا ، بے گناہوں، بچوں ، بوڑھوں اورعورتوں کا قتل عام کرنا اور فساد یا موجودہ دہشت گردی کا سبب بننا ، تو ایسی صورت میں ان کا جہاد قبیح لغیرہ ہے یعنی جہاد اس صورت میں اپنے غیر کی وجہ سے ، دیگر افعال واوصاف کے اعتبار سے برا عمل ہے، لہذا جہاد اپنی ذات میں حسن اور اپنے غیر کے اعتبار سے برا عمل ہے۔
میں اہل علم سے عرض کروں گا کہ وہ میری اس زاویہ نگاہ پر روشنی ڈالیں اور اگر یہ تحقیق درست ہے تو اس سے موجودہ دور میں کیچڑ اچھالنے جیسے سوالات کرنے والوں کا منھ بند ہوگا ۔وکل توفیق من اللہ سبحانہ تعالی ، واللہ المستعان !
No comments:
Post a Comment