Friday, February 28, 2020

The Subject Of Nahi (Prohibition) In Principle Of Islamic Jurisprudence Part 2 اصول فقہ میں نہی کی بحث


غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
قسط ثانی
نہی کی دو قسمیں ہیں: (۱) نہی عن الافعال الحسیہ یعنی افعال حسیہ سے نہی (۲) نہی عن الافعال  الشرعیہ یعنی افعال شرعیہ سے نہی ۔
نہی عن الافعال الحسیہ یعنی افعال حسیہ سے روکنے کا مفہوم
افعال حسیہ (واحد : فعل حسی)  وہ افعال ہیں جنہیں انسان  حسی طور پر جانتا سمجھتا ہو اور جن کا سمجھنا شریعت کے وارد ہونے  پر موقوف نہ ہو ، یعنی وہ افعال کہ جن کے معنی  شریعت کے وارد ہونے سے پہلے ہی معلوم ہوں اور وہی معنی شریعت کے وارد ہونے کے بعد بھی باقی رکھا گیا  ہو اور ان میں کوئی تبدیلی نہ کی ہو۔ شریعت میں کچھ افعال حسیہ ایسے ہیں جن پر نہی وارد ہوئی ہے ، جیسے زنا ، شراب کا پینا ، جھوٹ بولنا اور ظلم کرنا ۔ لہذا جن  افعال حسیہ سے روکا گیا ہے انہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہم  نہی عن الافعال الحسیہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
نھی عن الافعال الحسیہ کی چند مثالیں
 وہ  افعال حسیہ جن کے متعلق قرآن وسنت میں نہی وارد ہوئی ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ نھی عن الزنا (یعنی زنا سے نہی ): ارشاد باری تعالی ہے: (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا  (سورۃ الاسراء ۱۷، ۳۲ ) یعنی  ‘‘اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے’’۔
مذکورہ آیت کریمہ میں زنا کے  بارے میں نہی وارد ہوئی ہے۔ زنا ایک فعل حسی ہے جسے انسان شریعت کے بتانے سے قبل بھی جانتا تھا۔اس فعل حسی کے بارے میں شریعت کی طرف سے نہی وارد ہوئی ، لہذا ہم کہیں گے کہ یہ نہی عن الزنا یا  نہی عن الفعل الحسی کی ایک مثال ہے ۔
۲۔ نہی عن شرب الخمر  (یعنی شراب پینے سے نہی ):قرآن مجید میں شراب کی حرمت  آہستہ آہستہ  بیان  ہوئی ہے ۔ شراب کے بارے میں پہلا حکم اس وقت نازل ہوا جب عرب کے لوگوں نے شراب کے متعلق سوال کیا ۔اللہ تعالی نے جواب ان الفاظ میں دیا : (يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا) ترجمہ : ‘‘آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے’’ (البقرة، 2: 219)۔
شراب کے متعلق سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا کہ اگرچہ شراب اور جوئے میں بظاہر کچھ فائدہ ہے، لیکن ان کا گناہ اور نقصان ان کے فائدہ سے بڑھ کر ہے۔  شراب پینے سے عقل زائل ہوتی ہے جبکہ یہی عقل ہی انسان کو تمام گناہوں  سے  بچاتی ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے  کے بعد بہت سے محتاط لوگوں  نے شراب پینا ترک کردیا لیکن کچھ لوگ ابھی بھی شراب پیتے تھے۔
پھر ایک جگہ نماز مغرب کے دوران امام صاحب نے نشہ کی حالت میں سورہ الکافرون میں ”لاَأَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو)’’ کی جگہ “أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (یعنی میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو)’’ پڑھ دیا، جس سے معنی میں بہت زیادہ تبدیلی ہو گئی، یعنی شرک سے بیزاری کی جگہ شرک کا اظہار لازم آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ فورا نازل فرمائی: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ) ‘‘اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو’’ (النساء، 4: 43)
یہ شراب کے متعلق دوسرا حکم تھا جس کے نازل ہونے کے بعد بہت سے صحابہ کرام نے کلی طور پر شراب نوشی ترک کردی اور بہتوں نے نماز عصر اور نماز مغرب کے بعد شراب پینا اس لئے ترک  کر دیا کہ ان نمازوں کے اوقات ایک دوسرے سے بہت قریب  ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات متحقق ہونے لگی کہ جلد ہی شراب نوشی کی حرمت کا قطعی حکم نازل ہونے والا ہے۔ اس عرصہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ دعا بھی منقول ہے کہ: (اللّٰهم بیّن لنا فی الخمر بیاناً شافیاً) یعنی  ‘‘اے اللہ! شراب کے بارہ میں فیصلہ کن حکم نازل فرما دے’’۔
اس کے بعد تیسری مرتبہ میں شراب کی حرمت قطعی طور نازل ہوئی  اور ساتھ ہی حرمت کی علت و حکمت، دینی اور دنیوی نقصان بھی بیان فرما دی گئی ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: (یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ، إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ} [المائدة: 90، 91])
ترجمہ: ‘‘اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ، شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے’’
مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت کریمہ نے شراب پینے کو حرام قرار دیا ہے ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کریمہ کی تفسیر بھی ثابت ہے ۔صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (إن الله تعالى حرم الخمر، فمن أدركته هذه الآية وعنده منها شيء فلا يشرب ولا يبع) یعنی  ‘‘بے شک اللہ تعالی نے شراب کو حرام کر دیا ہے ۔تو جس شخص تک یہ آیت پہنچے اور اس کے پاس کچھ بھی شراب ہو تو وہ اسے نہ پیے اور نہ بیع کرے ’’۔
اس طرح قرآن کریم نے تدریجا شراب نوشی کی حرمت کو بیان کیا ۔ان آیات کے علاوہ متعدد احادیث بھی ہیں جن سے شراب نوشی کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (حُرِّمَتِ الْخَمْرُ قَلِيلُهَا وَكَثِيرُهَا وَالسُّكْرُ مِنْ كُلِّ شَرَابٍ حَرَامٌ) یعنی ‘‘شراب کی قلیل و کثیر (مقدار) حرام کر دی گئی ہے اور ہر مشروب جس سے نشہ آئے حرام ہے’’۔(سنن نسائی)
اسلام میں شراب نوشی کی حرمت کے ساتھ شراب کی خرید وفروخت بھی حرام قرار دے دی گئی ، جیساکہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے سال رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (إِنَّ اﷲَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَة وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ) یعنی ‘‘اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دے دیا ہے’’۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب نوشی سے شریعت  میں نہی وارد ہوئی ہے ۔شراب پینا ایک فعل حسی ہے  جس کے معنی شریعت کے وارد ہونے سے قبل بھی معلوم تھے ، لیکن جب شریعت نے اس  فعل حسی پر نہی وارد کی تو کہا جائے گا   کہ یہ نہی عن شرب الخمر ہے   جو کہ نہی عن الفعل الحسی کی ایک مثال ہے۔ 
۳۔ نہی عن الکذب (جھوٹ بولنے سے نہی): جھوٹ بولنا بھی ایک فعل حسی ہے جس کے معنی شریعت کے بتانے سے قبل بھی لوگ اپنے حواس ظاہرہ سے جانتے تھے ۔اس فعل حسی  کے متعلق قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر  نہی وارد ہوئی ۔درج ذیل نہی عن الکذب کی چند مثالیں ہیں:
ارشاد باری تعالی ہے : (إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ)  ترجمہ : ‘‘جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں“[16-النحل:105]۔
 اللہ تعالی کا فرمان ہے : (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ) ترجمہ : ”تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔“ [22-الحج:30]
ارشاد باری ہے: (أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ)  ترجمہ : ”دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں خدا ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔“ [39-الزمر:3]
ایک مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ) ترجمہ : ”اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو“۔  [9-التوبة:119]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏ ”آية المنافق ثلاث : ‏‏‏‏ إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا اؤتمن خان) ترجمہ ‘‘منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ (صحيح بخاري)
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ‏‏‏‏(ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ويل له) ترجمہ: ‘‘تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔“ (سنن ترمذی، سنن دارمی، مسند احمد)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا) ترجمہ: ‘‘ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو’’۔ (صحیح بخاری)
ان کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر جھوٹ بولنے (جو ایک فعل حسی ہے) پر نہی وارد ہوئی ہے۔
۴۔ نہی عن الظلم (ظلم کرنے سے نہی): ظلم کرنا بھی ایک فعل حسی ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا ، مثلا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا  وغیرہ ۔ شریعت نے  مختلف مقامات پر ظلم کرنے سے لوگوں کو روکا ہے ۔ ظلم کا اطلاق بہت وسیع ہے ، ظلم خواہ اللہ تعالی کے متعلق ہو ، مثلا  کفر وشرک ، جھوٹ  اور نفاق کے ذریعے، خواہ انسانوں پر ظلم ہو  یا اپنی جانوں پر ظلم ہو ، ہر طرح کے ظلم کے متعلق نہی وارد ہوئی ہے۔
مثلا ارشاد باری ہے  (إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ) ترجمہ : ‘‘یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے’’  [لقمان: 31/13]
اور فرمایا: (وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ) ترجمہ  ‘‘اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبر دار! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر’’ [هود:11/ 18]
قرآن میں ہے  (إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ) ترجمہ ‘‘’’ یقینا وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا’’  [42/ 40]
اور ارشاد باری تعالی ہے (إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ) ترجمہ  ‘‘’’صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں’’ [الشوری:42/ 42]
ان کے علاوہ اور بھی افعال حسیہ ہیں جن پر نہی وارد ہوئی ہے ۔خیال رہے کہ تمام افعال حسیہ پر نہی وارد نہیں ہوئی بلکہ وہ افعال حسیہ جن پر نہی وارد ہوئی ہے وہی نہی عن الافعال الحسیہ کی اصطلاح بولتے وقت مراد ہوتی ہے، جیساکہ اوپر گزرا کہ زنا ، شراب نوشی ، جھوٹ بولنا ، ظلم کرنا وغیرہ افعال حسیہ ہیں  جن کے معانی شریعت کے وارد ہونے سے قبل بھی لوگوں کو معلوم تھے ، البتہ ان کا حکم شرع پر موقوف ہے  جیساکہ ہم نے جان لیا کہ یہ وہ افعال حسیہ ہیں جن پر شریعت نے نہی وارد کیا ہے ۔
نہی عن الافعال الشرعیہ یعنی افعال شرعیہ سے روکنے کا مفہوم
افعال شرعیہ وہ افعال ہیں جن کا سمجھنا شریعت پر موقوف ہو اور انسان ان کا معنی ومفہوم اپنی ذاتی قدرت سے نہ سمجھ سکتا ہو ، ہاں جب شریعت نے ان افعال کے معنی  کو بتادیا تبھی وہ معنی انسان کی سمجھ میں آتے ہوں  ۔یعنی افعال شرعیہ وہ ہیں جن کا مفہوم  شریعت کے وارد ہونے اور بتانے سے پہلے  کچھ اور تھا لیکن شریعت نے آکر ان  میں تبدیلی کی اور ان کا مخصوص نوعیت پر مشتمل مفہوم متعین کیا  ، جیسے صوم، صلوۃ اور بیع وغیرہ۔صوم  کہ شریعت کے وارد ہونے سے پہلے مطلقا ‘‘امساک یعنی روکنے’’ کو کہا جاتا تھا مگر شریعت نے  نیت کے ساتھ صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے بچنے کا نام  صوم (روزہ) قرار دیا، لہذا صوم کا یہ معنی سمجھنا شریعت پر موقوف ہے  یعنی شریعت کے بتانے سے یہ معنی انسان کی سمجھ میں آیا۔ اسی طرح  شریعت کے وارد ہونے سے قبل صلوۃ کا لغوی معنی محض دعا تھا ، شریعت کے بتانے سے پہلے لوگ ان کی حقیقت اور طریق ادا سے واقف نہ تھے لیکن جب شریعت وارد ہوئی تو اس نے چند مخصوص افعال کا نام صلوۃ (یعنی نماز) قرار دیا پھر  لوگ ان کی حقیقت اور طریق ادا سے واقف ہوئے ۔اسی طرح بیع مطلقا مال کے بدلے مال دینے کو کہتے ہیں مگر شریعت نے بائع اور مشتری کی اہلیت ، مبیع کا قابل فروخت ہونا وغیرہ امور کا اس میں اضافہ کر دیا ۔اس لیے انہیں (صوم ، صلوۃ اور بیع کو) افعال شرعیہ کہا جاتا ہے۔ اب یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ افعال شرعیہ سے روکنے کا نام نہی عن الافعال الشرعیہ ہے۔
لیکن وہ کونسے افعال شرعیہ ہیں جن کے لیے بعض صورتوں میں نہی وارد ہوئی ہے ؟ تو اس کے جواب میں فقہائے کرام کچھ مثالیں دیتے ہیں ، مثلا عید الاضحی میں روزہ رکھنا ، اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنا ، ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچنا ، وغیرہ ایسے افعال شرعیہ ہیں جن پر نہی وارد ہوئی ہے ۔ اس کی مزید تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں ۔ 

No comments:

Post a Comment