Saturday, February 29, 2020

Dalit-Muslim Politics and Muslim Leadership دلت مسلم سیاست اور مسلم قیادت


سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
گزشتہ دسمبر سے پورے ملک میں این آر سی، سی اے اے اور شہری آبادی رجسٹر کے خلاف ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہے ہیں اور دانشور طبقہ بھی اس احتجاج میں شامل ہے۔ ملک کے ڈیڑھ سو سے زائد مقامات پر شاہین باغ کی طرز پر عوام نے احتجاجی دھرنوں کا انعقاد کیاہے۔ مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنان اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی اس احتجاج کی حمایت کررہی ہیں۔ ان سب کا مطالبہ ہے کہ حکومت سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کو واپس لے کیونکہ یہ قوانین غیرانسانی قوانین ہیں۔
ان احتجاجوں کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ پوری طرح غیر سیاسی اور غیر مذہبی ہے۔ حالانکہ ان احتجاجوں میں مسلم طبقے کا ایک بڑا حصہ شریک ہے مگر انہوں شعوری طور پر یہ فیصلہ کیاہے کہ کسی مسلم مذہبی قائد یا رہنما کو اس احتجاج میں شامل کرکے اسے مذہبی رنگ نہیں دینگے کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ آسام میں پانچ لاکھ مسلمانوں کے ساتھ چودہ لاکھ پسماندہ طبقات کے ہند و بھی شہریت فہرسے سے خارج کردیئے گئے ہیں۔ اس لئے اس تحریک کو مسلمان دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ ملکر چلارہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ ڈر ہے کہ اگر ملی رہنما اس میں باقاعدہ طور پر شامل ہوں تو وہ اپنے روایتی اسلوب اور زبان میں باتیں کرینگے اور اس مسئلے کو اسلام اور کفر کا مسئلہ بنادینگے۔ جس سے ملک کے دیگر طبقے اس تحریک میں مسلمانوں سے الگ ہوجائیں گے اور مرکزی حکومت اور بی جے پی کو مسلمانوں اور ہندوؤں میں تفریق پیداکرنے میں آسانی ہوگی۔ اس لئے انہوں نے اب تک اس تحریک میں کسی ملی رہنما کے شرکت کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔
یہ منظرنامہ اپنے آپ میں مسلمانوں میں آنے والی نئی سو چ کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اب تک ملک میں مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی معاملات کو لیکر جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں ان میں علماء اور ملی تنظمیوں نے مرکزی کردار اداکیاہے۔ آزادی سے قبل شاملی میں سب سے پہلے علماء نے ہی انگریزوں کے خلا ف جہاد کا اعلان کیا اور ان کے خلاف مسلح جنگ لڑی۔ مگر اس جنگ میں انہیں شکست ہوئی اور ہزاروں علماء شہید کردیئے گئے اور ہزاروں علماء کو کالا پانی کی  سزا ہوئی۔ اس کے بعد علماء کے طبقے نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور سیاست سے الگ ہوکر مسلمانوں میں دینی اور تعلیمی بیداری پیداکرنے کی مہم میں لگ گئے اور دیوبند اور دیگر ملی اداروں کی بنیاد پڑی۔ ؎
جنگ آزادی نے جب زور پکڑا تو مسلم سیاست دانوں کے ساتھ پھر علماء میدان سیاست میں آئے اور انہوں نے دوسری قوموں کے ساتھ ملکر آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔مگر آزادی کے بعد رفتہ رفتہ ملی قائدین کی پکڑ مسلم عوام پر کمزور پڑنے لگی۔ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے حل میں ناکامی کا ذمہ دار مسلمان ان علماء کو سمجھنے لگے کیونکہ اب تک وہ انہیں ہی اپنا قائد مان رہے تھے اور انہی کے فیصلوں پر لبیک کہہ رہے تھے۔ علماء اور ملی قیادت کا ایک طبقہ سرکاروں کا حاشیہ بردار بن گیاتھا جو مسلمانوں میں بیزاری پیدا کررہاتھا۔ ریاستی اور قومی سطح پر ان میں قیادت اور سرکاری مراعات حاصل کرنے کی مسابقت تیزہوگئی تھی۔ ایم ایل سی۔ ایم ایل اے، ایم پی اور راجیہ سبھا کی ٹکٹ کے لئے یہ لوگ حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے۔ مسلمانوں کی ملی قیادت سے بیزاری تب مکمل ہوگئی جب بابری مسجد کے معاملے میں عدالت عظمی نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دیا۔ اب مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ انکی ملی قیادت نے پچھلے ستربرسوں میں انہیں یہاں تک پہنچایاہے۔ آج انکی یہ حالت ہے کہ این آر سی کے تحت مسلمانوں کو غیر ملکی گھس پیٹھیا قراردیے کر ڈیٹنشن کیمپوں میں بھیجاجارہاہے اور وہاں انکی نامعلوم وجوہات کی بناپر موت ہورہی ہے مگر ہمارے علماء کے پاس اس مسئلے کے حل کے لئے سوائے بیانات کے کچھ نہیں ہے۔ بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ کچھ ملی رہنما اور دانشور مرکزی حکومت کو خوش کرنے کے لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
ایسی صورت حال میں مسلمانوں نے اب یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے وجود کی لڑائی اور اپنے مسائل کے حل کے لئے برادران ہند کے ساتھ ملکر سیکولر طرز پر لڑائی کرینگے۔ کیونکہ انہیں ملی قیادت کی نیت پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ کب کیاکربیٹھیں اور حکومت کے ساتھ ملک کر کون سے خفیہ معاہدہ کرلیں اور قوم کو تباہی کے دلدل میں دھکیل دیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے پاس نہ کوئی اعداد و شمار ہیں اور نہ مستقبل کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے۔ بس انکے پاس باطل کو دہلادینے والی اور حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ پیداکرنے والی تقریریں ہیں۔
موجودہ حالات میں سیکولر مسلمانوں نے دلت تنظیموں کے ساتھ ملکر ایک اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہے جو اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ دو دلت تنظیمیں BAMCEF اور بھیم آرمی میدان میں ہیں اور مرکزی حکومت کو کڑا چیلینج پیش کررہی ہیں اور حکومت اس اتحاد سے گھبرائی ہوئی بھی ہے کیونکہ گزشتہ مہینے جب بھیم آرمی کی قیادت میں دلتوں اور مسلمانوں نے جامع مسجد میں احتجاجی دھرنا دیا اور بھیم آرمی کے   سربراہ نے وہاں سے تقریر کی تو ا س کے بعد ہی انہیں گرفتار کرکے ایک ماہ کے لئے جیل بھیج دیاگیا۔ضمات پر انکی مشروط رہائی کے کچھ ہی دنوں کے بعد انہیں پھر حیدرآباد سے گرفتار کرلیاگیا۔ اس سے مرکزی حکومت کی اس اتحاد سے گھبراہٹ ظاہر ہے۔ اس تحا د میں مسلمانوں کی نمائندگی معروف وکیل اور کارکن محمود پراچہ کررہے ہیں۔ وہ اس سے قبل آسام میں این آر سی کے مسئلے پر جمعیت کے ساتھ کام کررہے تھے اور بہت سارے مسلمانوں کی قانونی طور پر مدد بھی کی مگر انہیں یہ شکایت تھی کہ ملی رہنما ریاست میں مسلمانوں کے مفادات کو اپنے سیاسی مفادات پر قربان کررہے ہیں اس لئے وہ وہاں سے الگ ہوگئے اور بھیم آرمی کے ساتھ ملکر این آرسی کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھایا۔
مگر دوسری طرف BAMCEF کے سربراہ وامن میشرام کو اس اتحاد سے اپنی تنظیم کے پیچھے رہ جانے کی فکر پیداہوگئی کیونکہ وہ بھی دلتوں کے حقوق کی لڑائی لڑرہے ہیں اور ای وی ایم کے خلاف گزشتہ کئی برسوں سے قانونی اور سیاسی لڑائی لڑرہے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں کئی مقدمات بھی داخل کئے اور ای وی ایم کو رد کرنے کی مانگ کی۔ انہیں ا س میں جزوی طور پر کامیابی بھی ملی۔ ان کے پاس کافی اعداد و شمار ہیں اوروہ بھارت کی تاریخ اور سماج کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ وہ دلت مسلم اتحاد کے زبردست حامی ہیں۔
جب وامن میشرام نے دیکھا کہ محمود پراچا اورچندرشیکھر آزاد کی قیادت میں دلت اور مسلم اتحاد کامیاب ہورہاہے تو انہوں نے اس کے توڑ کے لئے کسی مسلم چہرے کی تلاش شروع کردی۔ ان کی نظر انتخاب مولانا سجاد نعمانی پر گئی۔ مولانا سجاد نعمانی انکی تنظیم سے رسمی طور سے گزشتہ دو تین برسوں سے جڑے ہوئے ہیں مگر قومی سطح پر مسلمانوں کے قائد کی حیثیت سے نہیں جانے جاتے۔ مگر چونکہ وہ پہلے سے ان کی تنظیم سے جڑے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے محمود پراچہ۔چندرشیکھر آزاد کی جوڑی کے مقابلے میں وامن میشرم۔مولانا سجاد نعمانی جوڑی پیش کی۔مولانا سجاد نعمانی کو مسلم احتجاجیوں میں متعارف کرانے کے لئے انہیں شاہین باغ دہلی اور پارک سرکس کلکتہ بھیجاگیا۔ ہوسکتا ہے کہ دوسری جگہوں پر بھی ان کو بھیجاگیاہو۔ عام طور پر مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ مولانا سجاد نعمانی ان احتجاجی دھرنوں میں رسمی طور پر مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آتے ہیں مگر در اصل یہ بام سیف کی ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہے۔انہیں وامن مشرام جی مسلمانوں کے قائد کے طور پر پیش کررہے ہیں اور اپنی تقریروں میں ا ن کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ انہیں بہت تلاش کرنے کے بعد سجاد نعمانی جیسا مسلم قائد ملاہے۔دو سال قبل مولانا سجاد نعمانی کے متعلق یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ وہ آرایس ایس کے بہت قریب ہیں اور وہ آر ایس ایس کے کیمپوں میں بھی گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی تھی کہ وہ دراصل آر ایس ایس کو امن اور بھائی چارے کا درس دینے گئے تھے۔
مولانا سجاد نعمانی صاحب آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن اور غالباً اس کے ترجمان ہیں۔ اس بات سے یہ بھی بعید ا ز قیاس نہیں کہ بابری مسجد معاملے میں ہزیمت اٹھانے کے بعد مسلمانوں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے انہوں نے مولانا سجاد نعمانی کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیاہو اور این آر سی کے خلاف اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا۔اس طرح مسلم پرسنل لا بورڈ بالواسطہ طور پراس تحریک کو کنٹرول یا سمت دینے کی کوشش کرسکتاہے اور پھر وہی مسلمانوں کے پٹے ہوئے مہرے اس تحریک میں شامل ہونگے یا اسے کسی طرح متاثر کرنے کی کوشش کرینگے اور اس مؤثر اور سیکولر تحریک کو ختم نقصان پہنچائینگے۔ وامن میشرام نے کچھ ہی دن قبل مسلمانوں کو صلاح دی تھی کہ وہ اس تحریک میں مذہبی عناصر کو شامل نہ کریں کیونکہ اس سے انہی کا نقصان ہوگا مگر اب بدلتے ہوئے حالات میں انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی ہے کیونکہ ایک دلت لیڈر کی حیثیت سے چندر شیکھر آزاد انہیں چنوتی دے رہے ہیں۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا سجاد نعمانی نئے تناظر میں محمود پراچہ کا توڑ نہیں بن سکینگے ۔ محمود پراچہ نے عملی طور پر مسلمانوں کی بہت مد د کی ہے اور وہ قانون داں بھی ہیں اور اس تحریک کو بڑی تگ و دو اور قربانی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھارہے ہیں۔مسلمانوں کو اس تحریک کو مفاد پرست ملی عناصر سے محفوظ رکھنا ہوگا اور دلت۔ مسلم اتحاد کو سیکولر ببنیادوں پر استوار کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں اس ملک کا مستقبل اور اقلتیوں اور پسماندہ طبقات کی بھلائی ہے۔ آزمودہ را آزمودن حماقت است۔

No comments:

Post a Comment