کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ‘‘اس نے حق کے ساتھ آپ پر کتاب نازل کی جو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں اور اس نے تورات اور انجیل کو نازل کیا۔ اس کتاب سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے اور فرقان (حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا) نازل کیا ‘ بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب منتقم ہے’’۔ (آل عمران : ۔)
جمہور مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ اور تنزیل کا معنی ہے کسی چیز کو بتدریج نازل کرنا۔ اور قرآن مجید آپ پر ضرورت اور مصلحت کے اعتبار سے سال میں نازل ہوا ہے حق کا معنی ہے صدق، قرآن کریم کی دی ہوئی ماضی کی خبریں اور مستقبل کی پیش گوئیاں سب صادق ہیں اور قرآن مجید کے وعد اور وعید بھی صادق ہیں۔ اس لیے قرآن مجید حق ہے، حق کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جب کوئی اس وقت اس مقدار اور اس کیفیت میں آئی ہو کہ جس وقت، مقدار اور جس کیفیت میں اس کو ہونا چاہیے اس لحاظ سے قرآن کریم کے احکام بھی حق ہیں کیونکہ وہ احکام صحیح وقت میں نازل ہوئے، صحیح مقدار (مثلا، کتنے فرائض ہوں) اور صحیح کیفیت (مثلا کون سی چیز فرض کی جائے اور کون سی حرام) کے ساتھ نازل ہوئے، اس لیے قرآن مجید کی خبریں اور وعدے اور وعیدات بھی حق ہیں کیونکہ وہ صادق ہیں اور قرآن مجید کے احکام بھی حق ہیں کیونکہ وہ صحیح وقت، صحیح مقدار اور صحیح کیفیت کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔
قرآن مجید کے علاوہ اس آیت کریمہ میں تورات اور انجیل کا بھی تذکرہ ہے ۔ تورات اور انجیل کیا ہیں؟ حسب ذیل ان کے مختصر تعارف پیش کیے جارہے ہیں۔
تورات کا معنی ومفہوم
بعض علماء اور اہل تحقیق نے لکھا ہے کہ تورات کا لفظ توریہ سے ماخوذ ہے، توریہ کنایہ کو کہتے ہیں چونکہ تورات میں زیادہ تر مثالیں ہیں اس لیے اس کو توریہ کہا گیا اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور عبرانی زبان میں تورات کا معنی شریعت ہے۔ یہ دوسری رائے زیادہ صحیح ہے۔
تورات موجودہ بائبل (کتاب مقدس) کا ایک حصہ ہے، کتاب مقدس کے دو اہم حصے ہیں۔ (1) پرانا عہد نامہ (old testament) اور (2) نیا عہد نامہ (new testament)۔
پرانا عہدنامہ نئے عہد نامے سے نستبا زیادہ ضخیم ہے۔ کل بائبل یعنی پرانا عہد نامہ اور نیا عہد نامہ تمام عیسائیوں کی مذہبی کتاب ہے، لیکن یہودیوں کی مذہبی کتاب صرف پرانا عہد نامہ ہے۔
پرانے عہد نامہ کے مشمولات در اصل یہودیوں کے مختلف مقدس صحیفوں کا مجموعہ ہے۔ پرانے عہد نامہ کو علماء یہود نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ (1) تورات (2) صحائف انبیاء (3) صحائف مقدسہ۔
تورات کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس میں بنی نوع بشر کی پیدائش سے لے کر بنی اسرائیل کی تاریخ تک اور اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات تک بحث کی گئی ہے۔ بنی اسرائیل کے لیے جو معاشرتی قوانین اور عبادات کے طریقے وضع کئے گئے تھے وہ سب اس میں مندرج ہیں۔ اصل تورات حسب ذیل پانچ صحیفوں پر مشتمل ہے۔
اصل تورات کے مشمولات پانچ ہیں: (1) تکوین: اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کے لوگوں کے احوال بیان کئے گئے ہیں تاکہ آل یعقوب نمایاں ہو۔ اردو کی کتاب میں اس صحیفہ کا نام پیدائش ہے۔
(2) خروج : اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے لے کر ان کے اعلان نبوت اور کوہ طور پر جانے اور ان کو احکام دیئے جانے تک کے احوال مذکور ہیں۔
(3) لاویین: اس میں خصوصیت کے ساتھ بنی اسرائیل کی عبادتوں کے طریقہ کا ذکر ہے۔ اردو کی کتاب میں اس صحیفہ کا نام احبار ہے۔
(4) عدادا: اس میں خروج کے بعد کے بنی اسرائیل کے احوال مذکور ہیں کہ کس طرح بنی اسرائیل نے اردن اور ماوراء اردن کا علاقہ فتح کیا نیز اس میں تدریجی احکام اور قوانین کا بھی ذکر ہے۔ اردو کی کتاب میں اس صحیفہ کا نام گنتی ہے۔
(5) تثنیہ: اس میں تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی گئی ہے اور قوانین کا ایک مجموعہ پیش کیا ہے۔ یہ صحیفہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔ یہ پانچ صحائف اصل تورات ہیں اس کے علاوہ عہدنامہ قدیم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد میں آنے والے انبیاء پر نازل ہونے والے صحیفوں کو بھی شامل کیا گیا، مثلا یوشع، قضاۃ صمویل اور ملوک وغیرہ زبور بھی ان صحائف میں شامل ہے بعض صحائف کا جزو ہیں۔ یہ کل صحیفے ہیں۔ عہد نامہ قدیم (اردو) میں تورات کے پانچ صحائف کے یہ صحائف شامل ہیں۔ شروع میں ان صحائف کی فہرست ہے۔ یہ تمام صحائف عبرانی زبان میں تھے البتہ دانیال اور عزرا آرامی زبان میں تھے۔
انجیل کا لفظی معنی ومفہوم
انجیل عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی کے کسی لفظ سے مشتق نہیں ہے اور اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ لفظ نجل سے مشتق ہے نجل زمین سے پھوٹنے والے پانی کو کہتے ہیں اور چشمہ کے فراخ کرنے کو بھی کہتے ہیں انجیل بھی احکام الہی کا سرچشمہ ہے اور اس میں تورات کے مشکل احکام کو آسان کیا گیا ہے اس لیے اس میں نجل کی مناسبت پائی جاتی ہے۔ تفسیر کشاف کے مصنف علامہ زمخشری نے کہا ہے کہ تورات اور انجیل دونوں عجمی زبان کے لفظ ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواری نسلا اور مذہبا، عیسائی تھے اور ان کی مذہبی زبان عبرانی تھی یا مغربی آرامی، یونانی زبان میں انجیل کے معنی بشارت ہیں۔ انجیل کو بشارت اسی لئے کہا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت دی۔ قرآن مجید میں ہے:
(آیت) ‘‘واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرآئیل انی رسول اللہ الیکم مصدقالمابین یدی من التورۃ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ (الصف :)
ترجمہ ‘‘اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں درآں حالیکہ میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے’’۔
انجیل کی تاریخی حیثیت اور اس کے مشمولات
‘‘ہر چند کہ اصل انجیل اب من وعن باقی نہیں ہے اور موجودہ اناجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تالیف کی گئی ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری تین سالوں میں جو خطبات اور کلمات طیبات ارشاد فرمائے تھے۔ آپ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کے کافی عرصہ کے بعد آپ کے مختلف حواریوں اور شاگردوں نے آپ کی سیرت کو مرتب کیا اور اس سیرت میں اس وحی ربانی کو بھی درج کردیا جو حقیقت میں انجیل ہے، پھر اس میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ تغیرات ہوتے رہے اور کمی بیشی اور تحریف ہوتی رہی، عبرانی زبان سے اس کو سو سے زیادہ زبانوں میں منتقل کیا گیا، اس وقت دنیا میں چار انجیلیں موجود ہیں۔ متی کی انجیل، مرقس کی انجیل، لوقا کی انجیل اور یوحنا کی انجیل۔ یہ انجیلیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت اور آپ کی تعلیمات پر مشتمل ہیں اور رسولوں کے اعمال ہیں یعنی حواریوں کے اور پولس ‘ پطرس ‘ یوحنا اور یعقوب کے مکاتب ہیں یعنی خطوط ‘اور یوحنا کا مکاشفہ ہے‘ اور جو مجموعہ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اس کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں، اس کو کتاب مقدس اور بائبل بھی کہتے ہیں، بائبل لاطینی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی مجموعہ کتب ہے۔ اور یہ لفظ الہامی نوشتوں کے مجموعہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کیتھولک بائبل کے نوشتوں کی تعداد پروٹسٹنٹ بائبل کی تعداد سے زیادہ ہے ہم نے جو تفصیل درج کی ہے وہ پروٹسٹنٹ بائبل کے مطابق ہے’’ (تبیان القرآن ، علامہ سعیدی رحمہ اللہ )۔
No comments:
Post a Comment