ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
20 جنوری 2020
(انگریزی سے ترجمہ)
قطرہ قطرہ کر کے اس کی ابتدا ہوئی، جس میں بیس افراد پر مشتمل لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ حالیہ نافذ کردہ سی اے اے اور مجوزہ این آر سی کے خلاف احتجاج کے لیے ایک مصروف سڑک پر بیٹھیں گے۔ بہت سے دیگر افراد بالخصوص خواتین بھی اس میں شریک ہوتے گئے اور انتہائی قلیل مدت میں یہ جماعت سیکڑوں میں تبدیل ہو گئی۔ تقريبا ایک ماہ بعد شاہین باغ کے مظاہرین کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی لیکن ان مظاہروں کا مرکزی پیغام وہی رہا کہ سی اے اے جیسے ایکٹ نے مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچایا ہے اور این آر سی کے ساتھ ملک کر یہ ایکٹ بھارت کے مسلمانوں کوان کے اپنی ہی ملک میں غیر شہری بنا دیں گے’’۔
ایک ایسے مقام پر جہاں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے وہ جرآت مندانہ بیانات دے رہے ہیں کہ وہ اب اور زیادہ اپنی تذلیل برداشت نہیں کریں گے۔ مسلم علاقوں کی دقیانوسی تصور کی مزاحمت کرتے ہوئے شاہین باغ آج انسانی مساوات کا مظہر بن چکی ہےجہاں مرد و عورت، بچے بوڑھے سب اپنی آواز کو بہری حکومت کے گوش گزار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاریخ کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب اس حکومت کے خلاف کچھ کہنا ناممکن ہوگیا تو شاہین باغ کی ان بہادر خواتین اور مردوں نے اپنی ہمت دکھائی ، جس نے آخر کار اس بدنما خاموشی کو توڑ دیا۔
لہٰذا اس احتجاج کی مسلمانیت ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہندوستانی اور ہندو کو خصوصی زمرے میں شمار نہیں کیا جاتا بالکل اسی طرح ہندوستانی اور مسلمانوں کا بھی باہمی کوئی مخصوص زمرہ نہیں ہے۔ یہ لفاظی کے سوا کچھ نہیں جس میں پوری کوشش مسلم مظاہرین کی ایجنسی سے انکار کرنا ہے۔یقینی طور پر پچھلے کئی سالوں میں بہت کچھ ہو چکا ہے ۔ اداروں سے سمجھوتہ کیا گیا، یونیورسٹیوں پر حملہ ہوا اور کسی بھی طرح کی اختلاف رائے رکھنا ایک جرم مان لیا جاتا ہے ۔ تاہم کسی کو اس حققیت سے نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے کہ اس حکومت کا اصل نشانہ مسلمان ہی ہیں۔ بائیں جانب کے لبرل اختلاف رائے اور آزادانہ تقریر کی روک تھام کے خلاف احتجاج کرنے میں بالکل آزاد ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو مسلمانوں کو یہ بتائے کہ وہ احتجاج میں کون سا نعرہ بلند کرے، کیسے احتجاج نکالے، کیا کرے کس چیز سے گریز کرے۔ بہت طویل عرصے سے اس ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی لبرل آواز کے ذریعے کی جا رہی ہے لیکن شاہین باغ اور ہزارہا اس طرح کے دیگر مظاہروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اب مسلمان اپنی آواز پا چکے ہیں۔ یہ آواز زیادہ تر نوجوانوں کی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا جشن منایا جائے۔
اجتجاجوں کی نوعیت بڑے پیمانہ پر سیکولر ہی رہی ہے اور مظاہرین صرف اپنے آئینی حقوق کے بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ان مظاہروں کی بہادری اور دور اندیشی ہی ہے کہ انہوں نے اب تک کسی مذہبی عالم کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ مزید اس پر بھی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ مسلم قائدین کی مختلف سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی کسی طرح کی سیاسی تقریر کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان تحریکوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ بے سرا ہے جس میں نوجوان کچھ مقامات پر اپنے اوپر ظالمانہ سلوک ہونے کے باوجود دلیری سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں یہ بتانے کے لئے کہ کسی خاص طریقہ کا سلوک کرو جیسے ششی تھرور نے کیا، جو اس احتجاج کو پالیسائز کرنے کے مترادف ہے جس کی اشد مذمت کی ضرورت ہے۔ مجھے یہاں ایک انتباہ شامل کر لینے دو : میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کچھ نعرے یہاں پریشان کن نہیں تھے خیریہ پریشان کن تھے یا نہیں معاشرے کا داخلی معاملہ زیر بحث ہونا چاہیے۔ کسی بھی اقدام کے بغیر، کانگریس قائدین کو ان مسلم مظاہرین کو یہ سکھانا چاہئے کہ وہ کون سے نعرے بلند کریں، خاص طور پر جب پارٹی نے اس معاملے پر مسلمانوں کی حمایت کے لئے بہت کم کام کیا ہے۔
اگر چہ طلبہ اور سول سوسائٹی کے ممبران نے کثیر تعداد میں ان احتجاجوں میں شریک ہوئے ہیں لیکن یہ کہنا مناسب ہے کہ شمالی ہندوستان میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرے زیادہ تر مسلمانوں نے کئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے زوال کو دیکھنے کے متمنی حضرات کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اکثریت کی شمولیت کے بغیر کبھی بھی اقلیتوں کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ حکومت کی تبدیلی میں اہم کردار کر سکے۔ حقیقت وہ نہیں ہے جو ہو رہا ہے۔لبرل بہانوں کے باوجود ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اکثریتی برادری اس میں شامل نہیں ہو رہی ہے، سوائے کچھ یونیورسٹیوں کے نوجوان طلباء کے۔ اوراس کے برعکس اس ایکٹ کے لئے اکثریتی طبقے کی جانب سے قابل غور خاموش حمایت کی جا رہی ہے۔ ایک انتہائی نفیس حکمت عملی کے تحت ان کو یقین کامل ہے کہ نہ ان لوگوں پر این آر سی نافذ ہو گا اور نہ ہی انہیں اپنے کاغذات دکھانے ہوں گے۔ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں سے ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ متعدد جگہوں پر پولیس کا یہ ظالمانہ سلوک اس احساس کا کچھ حصہ بن کر نمودار ہوا۔ جب تک اس ملک کی ہندو اکثریت اس ایکٹ کے خلاف احتجاج نہیں کرتی ہے، اس وقت تک حکومت پر ایسا کوئی دباؤ نہیں پڑے گا کہ جس س وہ اس کو واپس لے یا کم از کم اس طرح کے ایکٹ اور آنے والے این آر سی کی ضرورت کے بارے میں حقیقی بحث شروع کرے۔ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے کہ مظاہرین اس حکومت کے ووٹر نہیں ہیں۔ کیونکہ سڑکوں پر ان کی موجودگی اس حکومت کو متاثر نہیں کرتی ہے اس کے برعکس یہ لگتا ہے کہ حکومت ان مظاہروں کو اپنے خاتمے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
شاہین باغ اس مسئلے میں مثالی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے۔ بہت سے مخالف اور لبرل قسم کے لوگ اس احتجاج میں شامل ہوئے۔ اس طرح وسیع پیمانے پر بے چین لوگوں کی جماعت مسلمانوں کے لئے اپنی آواز اٹھا رہی ہے۔ لازمی طور پر اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ لیکن یکجہتی کی یہ تعریف ہمیں جو کچھ نہیں ہو رہا ہے اس کی حققیت سے دور اندھیرے میں نہ رکھے۔ ایک بات تو یہ کہ بہتر ہوتا اگر شاہین باغ آکر اس اکے احتجاج کی حمایت کرنے والے ہی اپنے اپنے علاقوں میں احتجاجوں کے خیمے لگا دیتے۔ہمیں صرف شاہین باغ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دہلی کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے احتجاجی مظاہرے کی ضرورت ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ دور دراز سے شاہین باغ آنے کے خواہشمند افراد اپنے ارد گرد کے ہندو اکثریت کے علاقوں میں ہی احتجاجی مظاہرے شروع نہیں کرتے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر مسلم علاقوں میں آکر، لبرلز محض حکومت کے اس دعوے کو مزید تقویت دے رہے ہیں کہ صرف مسلمان اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ابھی لبرلز کے لیے یہ وقت نہیں کہ جرم کا احساس کریں اور مسلمانوں کو رومانٹیسائز کریں بلکہ وقت ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اپنا خود کا الگ احتجاج شروع کریں۔
مزید حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تقریباً ایک ماہ کے احتجاج سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے۔ انہیں انتہائی گہرائی سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح جد و جہد کر کے دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے، انہیں یہ کیسے سمجھایا جائے کہ آنے والا این آر سی صرف ان کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے تباہ کن ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے شاہین باغ کے مظاہرین نے سڑک بلاک کردی ہے جس کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں زبردست جام ہوگیا۔ اس سے متصل علاقوں میں یہ احتجاج پہلے ہی مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو یکطرفہ کر رہا ہے۔ کسی بھی کوشش میں، پسپائی سے حکمت عملی کی طرف رجوع کا اختیار ہمیشہ ہوتا ہے جو کہ شکست کے مترادف نہیں ہے۔
شاہین باغ میں ہونے والے احتجاج نے بہت کچھ حاصل کیا۔ پورا شہر ان کے ساتھ ہے اور دوسری جگہوں پر ان مظاہرین کے منہ زور طاقت کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں بالخصوص ان خواتین کے بارے میں جو اس میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس احتجاج کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی گئی ہے جس نے حکومت کو سوالوں سے شرمندہ کردیا ہے۔دنیا نے اس بات کا نوٹس لینا شروع کردیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان کس کرب سے گزر رہے ہیں اور ان سبھی میں شاہین باغ نے بے حد تعاون کیا ہے۔ لیکن اب انہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اتنے احتجاج جو ہوتے آئے ہیں کافی ہے اور اب مزید کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں بالکل انہیں احتجاج کے اگلے مرحلے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے جو مثالی طور پر ہونا چاہئے جس سے اس احتجاج کے مقصد کو شہر اور ملک کے دیگر حصوں تک کیسے لے جائیں۔یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ کانگریس پارٹی کے مقامی سیاستدانوں نے وہاں اپنا مفاد تلاش کرلیا ہے اور وہ سڑک کو روکنے کے لئے اٹل ہیں، اس طرح مظاہرین اور پولیس کے مابین حتمی رنجش پیدا ہو رہی ہے۔ عموماً شاہین باغ کے مظاہرین کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے اور احتجاجی کوشش کا ایک نیا طریقہ وضع کرنا چاہیے ان میں سے ایک یہ کہ وہ سیاسی جماعتوں سے آزاد ہو اور ان کے پاس ایک ایسی ایجنسی موجود ہو جو کارروائی کا راستہ نکال سکے۔
No comments:
Post a Comment