کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یقیناً اسلام ایک اچھی حکمرانی کے لئے جمہوریت کو فروغ دیتا ہے اور مسلم فقہاء کا بھی یہی راجح نظریہ ہے کیونکہ اسلام میں امام کو تمام شہریوں کا وکیل مانا جاتا ہے۔ بیعت کے معاہدے کو ووٹنگ کی ایک شکل قرار دی جا سکتی ہے ان سب کا جواز شوریٰ کے تصور سے ہوا ہے جو جمہوری طرز حکمرانی کے موافق ہے۔
عربی اصطلاح میں شوریٰ بمعنی مشاورت کے ہے اور دوسرے معانی جن کا استعمال شوری کے قریبی معنی کو بتانے کے لیے کیا جاتا ہے وہ استشار اور تشاور ہیں۔استشار بمعنی 'دوسرے سے مشورہ لینا' ہے اور تشاور بمعنی 'باہمی مشاورت' ہے۔لفظ شوریٰ قرآن سے ماخوذ ہے ، درحقیقت قرآن کی ایک پوری سورۃ اسی شوریٰ سے منسوب ہے۔
"اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور وہ کہ جب انہیں بغاوت پہنچے بدلہ لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو "(سورہ شوریٰ 43؛40—38)
ان تمام آیتوں میں جن الفاظ پر ہمیں توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ ہے وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَینَهُمْ جس کا ترجمہ یہ" اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے"۔ یہ پیغام الہی ایک عام اصول کی یاد دہانی کرتا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ سے کام لیں تو وہ تمام معاملات میں پختہ فیصلہ کر سکیں گے۔ اور یہ بھی ہے کہ ہادی امت کو بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنی حکمرانی اور فوجی امور میں اپنے اصحاب سے مشورہ کریں۔ یہ ایسا مثالی کردار بنا کہ اس کی اتباع آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد آپ کے اصحاب علیہم الرضوان نے اپنے ہر عمل میں جاری رکھا۔
آپسی مشاورت کی اہمیت کو آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و کی اس تعلیم سے سمجھا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے فرمایا " اگر آپ کے قائدین آپ میں سب سے بہتر ہیں اور آپ کے امراء آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فراخدل ہیں اور آپ لوگوں کے معاملات میں ایک دوسرے کے مشورے شامل ہیں تو زمین کا بیرونی حصہ تمہارے لیے اس کے اندرونی حصے سے زیادہ مفید ہوگا (تفسیر قرطبی)۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "اور کاموں میں ان سے مشورہ لو" (3:159)۔ اس کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ریاستی امور میں مشورہ لینا لازم ہے۔ ریاست کےسربراہ کا انتخاب باہمی مشاورت سے ہونا چاہیے۔ علماء اسلام فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول نے دور جاہلیت کے بادشاہوں کی خود مختار حکمرانی کا خاتمہ کیا جو ریاست کو موروثی جائیداد سمجھتے تھے ۔ اسی طرح اسلام نے خود مختار حکومت کا خاتمہ کرکے حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھی۔
خطیب بغدادی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی جس میں انہوں نے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کے بعد ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے جس کے بارے میں نہ تو قرآن کا کوئی خاص حکم ہے اور نہ ہی آپ کی دی ہوئی کوئی ہدایت تو اس وقت ہم کس طرح اس کا حل تلاش کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا، "ایسی صورت میں تم میری امت کے عبادت گزار بندوں کے پاس جمع ہو کر باہمی مشاورت کے ذریعے معاملات کے فیصلے کرنا کسی فرد واحد کی رائے پر فیصلہ نہ لینا"(تفسیر روح المعانی)
ایک حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ "جب کوئی قوم باہمی مشورے کے بعد کوئی اقدام اٹھاتی ہے تو یقینا یہ صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے " (عبد ابن حمید نے اسے اپنی مسند میں روایت کیا )
جمہوری نظام کی حکمرانی میں ، ہم عام لوگ ووٹ دے کر حکومت کا انتخاب کرتے ہیں ، یعنی ہم باہمی مشاورت سے اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح اسلام اس شوریٰ کے تصور کے ساتھ جمہوری نظام حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ موجودہ جمہوری ممالک کے قوانین اور اسلامی قوانین کے مابین کچھ خاص اختلافات اگرچہ موجود ہیں لیکن وہ ایسی صورت حال پیدا نہیں کرتے جس میں مذہب کی کسی بنیادی عقیدہ کی خلاف ورزی ہو سکے ۔جمہوری نظام حکومت میں، حقوقِ انسانی، مذہبی آزادی اور ذاتی سلامتی کی ضمانت دی جاتی ہے ۔ان تمام حقوق کی تائید بذریعہ اسلامی تعلیمات بھی کی گئی ہے۔ اس لئے ہم یہ ماننے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ اسلام ایک اچھی حکمرانی کےلیے نظام جمہوریت کی بھی حمایت کرتا ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-q-and-a/kaniz-fatma,-new-age-islam/is-democracy-upheld-by-islam-as-a-means-of-good-governance?/d/120129
No comments:
Post a Comment