سلطان شاہین ، فاونڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
6 مارچ 2020
لسانی بیان (جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا تینتالیسواں باقاعدہ اجلاس (۲۴ فروری ۲۰ مارچ ۲۰۲۰)
عام بحث ، آئٹم 3 ، ترقی کے حق سمیت ، تمام انسانی حقوق ، شہری ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کا فروغ اور تحفظ)
جسے سلطان شاہین ، بانی ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام نے ایشین یوریشین ہیومن رائٹس فورم کی جانب سے پیش کیا۔
تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے سکریٹری جنرل نے گذشتہ ہفتے کونسل کو بتایا تھا کہ او آئی سی اسلام میں انسانی حقوق سے متعلق قاہرہ اعلامیہ (سی ڈی ایچ آر آئی) کو تبھی قبول کرے گی جب اس پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نظر ثانی ہو جائے گی ۔اس کی یقین دہانی ہو جاتی اگر ممالک کے انفرادی رکن نے انسانی حقوق سے متعلق کسی نئے عزم کا اظہار کیا ہوتا ۔تاہم نہیں لگتا کہ صورت حال ایسا ہی ہو جائے ۔ یہاں صرف چند ایک مثالوں ہی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ ترکی ایک ایسا قانون لا رہا ہے جس میں بچیوں کے ساتھ عصمت دری کرنے والوں کو آزاد گھومنے کی اجازت ہوگی اگر وہ ان کے متاثرین سے شادی کرلیں ، گویا وہ اس طرح عصمت دری کے جواز کی ایک شکل فراہم کرنے کے پے درپے ہے ۔ پاکستان میں ہر سال سیکڑوں ہندو ، سکھ اور عیسائی لڑکیاں جبری طور پر تبدیلی مذہب اور عصمت دری کا نشانہ بنتی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ، مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور انہیں قتل کرنے جیسے معمولات ، شیعوں ، احمدیوں ، اسماعیلیوں اور ہزاروں کے خلاف مذہبی ظلم و ستم جاری ہیں۔ اب بھی پاکستان اور دیگر اسلامی اقوام میں خود کش بم دھماکے سمیت دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے بچوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔
میڈم صدر ،
او آئی سی کے سکریٹری جنرل نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ان کی تنظیم (او آئی سی) دہشت گرد گروہوں کے ذریعہ اختیار کردہ نظریاتی بیان بازی کی مذمت کرتی رہتی ہے۔ لیکن محض جہادی بیانات کی مذمت نہ تو اب تک معاون ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس سے مدد کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ جہادی نظریات کے حاملین محض بیان بازی نہیں کرتے، بلکہ وہ تو تشدد اور تکفیر کی ایک بہت ہی مربوط اور جامع تھیولوجی بھی تیار کر چکے ہیں ۔
ان کی یہ تھیولوجی کافی اثر انداز ہے کیونکہ یہ اسلامی مکتب فکر کے تمام روایتی مذاہب کے اجماع پر مبنی ہے ۔اس تھیولوجی کا مقابلہ ان اصولوں اور تدبیروں سے نہیں کیا جا سکتا جنہیں ہمارے علمائے کرام اور اسکالرز جہادی نظریات کے رد کے دوران بروئے کار لاتے ہیں۔بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن وشانتی اور آپسی رواداری پر مبنی ایک نئی تھیولوجی کی تشکیل دی جائے جو اتنی ہی جامع اور مربوط ہو تاکہ ان پر وثوق حاصل کیا جا سکے ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ او آئی سی ابھی تک اس طرح کی تھیولوجی تیا رکرنے کی جانب کوئی سعی نہیں کر رہاہے ۔
صوت الحکمۃ جسے او آئی سی کا علمی شاخ مانا جاتا ہے وہ تو صرف ابتدائی دور میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کی بنیاد پر اسلامی رواداری کی مثبت خوبیوں کا ذکر کررہی ہے جنھیں روایتی علماء نے منسوخ قرار دے رکھا ہے ۔ یہ ان نظریات پر کام نہیں کر رہی جن میں جہادی نظریے کی اصل طاقت مضمر ہے۔ مثال کے طور پر ، قرآن مجید کا غیر مخلوق ہونا ، جو جنگ کے وقت کی آیات سمیت تمام قرآنی آیات کی آفاقی اور دائمی اطلاق کی اساس ہے، نسخ کا عقیدہ جس کا یہ ماننا ہے کہ جنگی امور سے متعلق ہدایات جو بعد میں مدینہ شریف میں نازل ہوئیں وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی پُر امن وقتی آیات کو منسوخ کر چکی ہیں۔ تکفیریت جو مسلمانوں کو کافر و مشرک اور منافق قرار دیتی ہے اور پھر انہیں قتل کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے ۔ غزہ ہند جیسے آخر زمانہ کے تعلق سے جو بھی تھیوری ہے اس نے ہمارے نوجوانوں میں داعش کو کافی مقبول بنا دیا ہے ، اسلامی علاقوں کو وسعت دینے میں جارحانہ جہاد کا نظریہ، عالمی خلافت کا نظریہ جو جدید جمہوریت کو غیر اسلامی سمجھتا ہے، الولاء والبراء کا عقیدہ جو صرف مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور غیر مسلموں کے ساتھ تعامل سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا عقیدہ جس میں صرف اسلام کو صحیح سمجھا جاتا ہے اور تمام غیر اسلامی مذاہب کو غلط سمجھا جاتا ہے، اور یہ دلیل قائم کرنا کہ جو مسلمان بے بس ہیں ، ظلم و ستم کا سامنا کررہے ہیں ، اور ان کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار نہیں ہے ، وہ اپنے جسموں کو نام نہاد شہادت کی کارروائیوں کے لیے جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔او آئی سی پر یہ لازم ہے کہ وہ ان نظریات پر کام کریں تاکہ امن ورواداری کی مضبوط تھیولوجی بنایا جا سکے۔
میڈم صدر ،
اگر او آئی سی در حقیقت کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے تو اسے جہادی نظریات کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا اور قرآن و سنت پر مبنی زبردست دلائل سے اس کا رد کرنا ہوگا۔ او آئی سی کے ممبر ممالک کو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق ایک حقیقی اور ناقابل اعتراض وابستگی دکھائیں۔ جب انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور پر دستخط کیا تھا اس وقت وہ اس کے دفعات کے بھی پابند ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹ کونسل کو یقینی بنالینا چاہئے کہ دستخط کنندگان کے ذریعہ اس کی دفعات پر عمل درآمد کیا جائے۔
جہادی لٹریچر اور مدارس میں پڑھائے جانے والی روایتی تھیولوجی میں بسے بنیادی جہادی جڑوں پر میرا مطالعہ دہائیوں سے ہے اور اسی بنیاد پر میں یہ موقف رکھنا چاہوں گا کہ کم از کم مندرجہ ذیل نکات کو علمائے کرام جہادی نظریات کے رد وابطال میں زیر غور رکھیں تاکہ ان کا یہ عمل موثر ثابت ہو سکے۔ان پر ضروری ہے کہ وہ ان نکات کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے پورے اصولی اصطلاح ومنہج کے ساتھ اطمینان بخش جواب دیں اگر وہ واقعی چاہتے ہیں کہ نوجوانوں پر اس کا مثبت اثر ہو سکے اور پھر وہ مزید تشدد کی راہ اختیار کرنے سے باز رہ سکیں۔
۱۔ جہاد فی سبیل اللہ لازما نفس اور برے افکار وخیالات کے خلاف دائمی جد وجہد کرکے حقوق اللہ کی ادائیگی کا نام ہے ۔ یہ ایک مستقل جدوجہد ہے جس کا سامنا مسلمانوں کو ہمیشہ کرنا پڑتا ہے، تاکہ ان کا دماغ خدا کے ذکر سے نہ بھٹک جائے۔ یہ مسئلہ علمائے کرام کے لیے بہت مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ فقہ کے مذاہب اربعہ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ کا مطلب دعوت اسلام کی نشر واشاعت اور پھر ان سے قتال کرنا جو اسے قبول نہ کریں۔ تاہم اسے کرنا ضروری ہے اگر واقعی جہادزم کا رد بااثر انداز میں کرنے کا ارادہ ہو ۔
۲۔ اللہ کی راہ میں قتال کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے لیکن یہ جہاد اصغر ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا (holy war) مقدس جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں مقدس جنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کبھی کبھا ر جہاد فی سبیل اللہ مذہبی اذیت وبربریت اور ظلم وستم کے خلاف لڑی جا سکتی ہے اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ کہ جسمانی قابلیت ہو اور متفقہ اسلامی ریاست کے حکمران کے حکم تلے ہو۔تاہم اس کا مقابلہ نہایت سخت شرائط کے ساتھ کرنا پڑا تھا جیسے کسی اسلامی ریاست کا دفاع میں لڑنا یا جنگ کا اعلان پہلے ہی کرنا، دشمن ریاست سے تمام معاہدوں کو ترک کرنا ، کسی بھی حالت میں غیر جنگجوؤں کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا ، وغیرہ۔ گروہ یا افراد کسی بھی حالت میں حق نہیں رکھتے کہ کسی طرح کی جنگ میں شریک ہو جائیں اور پھر اسے جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیں۔
۳۔ قرآن کریم کی وہ آیات جن کا تعلق جنگی امور سے ہے ، مثلا سورہ توبہ ، سورہ انفال، سورہ مائدہ ، سورہ بقرہ اور سورہ حج وغیرہ، تو ان آیات کا استعمال مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف دائمی جنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔ یہ ان آیتوں کا ایک مجموعہ ہے جو ابتدائی مکی دور میں محمد ﷺ پر اس آفاقی مذہب کے لئے ہدایات کے طور پر نازل ہوئی ہیں جو زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ہی تمام قوموں کی طرف ایک ہی پیغام کے ساتھ بھیجے جانے والے مساوی حیثیت کے متعدد رسولوں(قرآن136 :2) کے ذریعہ بھیجا گیا ہے۔ لہذا، وہ ابتدائی آیتیں جو ہمیں امن اور ہم آہنگی، حسن معاشرت، صبر، رواداری اور تکثیریت پسندی کی تعلیم دیتی ہیں قرآن کی بنیادی اور تعمیری آیات ہیں۔ یہی اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔
لیکن قرآن میں بہت ساری ایسی سیاق و سباق والی آیتیں بھی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لئے سخت اور مشکل ترین حالات سے نمٹنے کے لئے بطور احکام و ہدایات نازل ہوئیں تھیں اس لئے کہ مشرکین مکہ اورمدینہ کے اکثر اہل کتاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آنے والے خدا کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے چند صحابہ کو نیست و نابود کرنے کا عزم مصمم کرلیا تھا ۔ یہ آیتیں عظیم تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہمارے مذہب کو قائم کرنے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسی ناقابل تسخیر پریشانیوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اپنی تاریخی اہمیت کے باوجود 1400 سو سال قبل جب جنگ ختم ہوگئی اور اللہ کے فضل سے اس میں مسلمان فتح یاب ہو گئے تو اب یہ احکام و ہدایات ہمارے لئے قابل اطلاق نہیں ہیں ۔ ہم ابھی کسی جنگ کی حالت میں نہیں ہیں۔ جہادی مفکرین جواپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ان آیات کا غلط استعمال کرتے ہیں، حتی کہ وہ روایتی علما جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان کا نفاذ آج کی ایکیسویں صدی میں بھی لازم ہے، تو درحقیقت وہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اس کے خلاف عمل کو انجام دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس جال میں پھنسنے کی ضرورت نہیں ۔
۴۔ آج جس انداز میں بنیاد پرست عناصر اصول نسخ بیان کرتے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہے۔ خدا کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑےسوائے ایسے چند احکامات کے جن کا حکم اور اطلاق و انطباق عارضی ہو جیساکی جنگ سے متعلق آیتیں۔یہاں تو کوئی سوال ہی نہیں کہ مکی آیتیں جو مشکل اوقات اور ناگزیر حالت میں امن ورواداری اور باہمی عمدہ سلوک کی تعلیم دیتیں ہیں وہ مدنی آیتوں سے منسوخ ہیں۔ اس بات کی خبر تو ہمیں واضح طور پر تفسیر کی مختلف کتابیں دیتیں ہیں اور اسی کی مدارس اپنے بچوں کو تعلیم دیتیں ہیں۔
اٹھارہویں صدی کے اسکالر شاہ ولی اللہ دہلوی جیسےمفسرین نے منسوخ آیتوں کی پانچ سو آیتوں کی تعداد سے گھٹا کر صرف پانچ بتائے ہیں۔لیکن اس کے باوجود موجودہ دور کے مفسرین قرآن متقدمین کی اتباع کرتے ہیں اور صرف اسی کو نقل کرتے ہیں جس کو متقدمین نے ایک مختلف سیاق اور مختلف مقام میں خاص کرکے کہا تھا ۔ تفسیر کی قدیم کتابوں کایہاں تک دعوی ہے کہ ایک آیت السیف اکیلے ہی ۱۲۴ منسوخ آیات کے لیے ناسخ ہے جن کا نزول مکہ کے ابتدائی دور میں ہو اتھا ۔ بیسویں صدی کے غلام احمد پرویز جنہوں نے نسخ کے نظریہ کو باطل قرار دیا تھا انہیں ہمارے علما ‘‘عقل پرست’’ کہتے ہیں ، مانو کہ عقل پسندی ہونا اسلام میں کوئی جرم ہو ۔
بس بہت ہو چکا، اب اس طرح کی باتیں بند ہونی چاہیے پھر ہمیں لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ امن ورواداری کی تعلیما ت پر مبنی مکی آیتیں بعد میں نازل ہونے والی ان مدنی آیتوں سے منسوخ نہیں جو مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف جنگ کی تعلیم دیتیں ہیں۔مدنی آیتوں کا تعلق صرف ان ہی اوقات وحالات میں تھا جن کے لیے نبی علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا، جیساکہ سورہ توبہ کا نزول نبی علیہ السلام کے غزوہ تبوک (۶۳۰ عیسوی مطابق ۹ ہجری)کے موقع پر ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اسے قابل نفاذ نہ مانا جائے کیونکہ جنگ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
۵۔ آئی ایس آئی ایس اور دیگر بنیاد پرست نظریات کے ذریعہ پیش کردہ ملحمہ کبری تھیوری کی بنیاد مشکوک احادیث پر مبنی ہے اور اس کی حیثیت نہیں ، اسی وجہ سے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسے سنجیدگی سے نہ لیں۔
عسکریت پسند نظریاتی لوگ اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کے لئے متعدد احادیث کا حوالہ دیتے ہیں۔ پاکستانی مذہبی اسکالروں نے نام نہاد غزوۃ الہند (ہندوستان کے خلاف مذہبی صلیبی جنگ) کے بارے میں جو بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا ہے، وہ بھی در اصل آخر زمانہ کی تھیسس کا ایک حصہ ہے۔ اس بات پر زور دینا ہوگا کہ حدیث (موضوع حدیث) کو وحی کے ساتھ الجھایا نہیں جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی کتابت کا کام فورا شروع نہیں ہوا تھا۔ہاں قرآن مجید کی کتابت اور حفظ کا کام فورا اور متعدد صحابہ کرام کے ذریعے ہوا۔ حدیث کی روایت ایک طویل سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے ۔ ہزاروں احادیث متعدد وجوہات کی بناء پر جعلی قرار دی جاتی ہیں۔ لہذا احادیث جو عام طور پر کافروں کے خلاف جنگ کا مطالبہ کرتیں ہیں یا وہ احادیث جو حتمی وقت کی جنگوں سے متعلق ہیں ان کا استعمال غزوہ ہند جیسی نئی جنگیں شروع کرنے کے لئے نہیں کیا جا سکتا ۔
۶۔ تکفیرزم اسلام میں ناقابل قبول ہے۔ اللہ تعالی نے روہین رسالت یا ارتداد کے لیے کسی سزا کا قانون متعین نہیں فرماتا۔ نہیں اس نے کسی انسان ، حاکم یا اسکالر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی سزا دیں۔اگرچہ یہ ثبوت مل جائے کہ کسی نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے، تو اس صورت میں بھی سزا کا معاملہ صرف اللہ تعالی کے حوالہ ہونا چاہیے ۔لہذا مفروضہ ارتداد یا توہین رسالت یا باطل عقائد واعمال کی بنا پر تکفیر کے تمام احکام کو ناقابل عمل مانا جائے ۔
اس سلسلے میں مسئلہ ارتداد پر سزا کا جواز دینے کے لیے ردہ جنگوں کی تاریخی مثال کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ردہ جنگیں لڑیں لیکن وہ ایک بہت ہی مختلف زمان ومکان میں واقع ہوئیں۔ہمیں اس بات کا قطعی علم نہیں کہ آخر کس وجہ سے وہ ایسی جنگیں لڑنے پر مجبور ہوئے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام سمجھنے کے معاملے میں آج ہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔وہ تو پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام کو قبول کیا اور تئیس سالہ نبوی دور میں حضور علیہ السلام کے سب سے قریبی ساتھی بھی رہے تھے۔ آج ہم ردہ جنگوں کی تاریخی واقعات کا حوالہ دے کر ارتداد کے کسی مفروض مجرم کو سزائے موت کا حکم نہیں سنا سکتے ۔
عقیدہ کے معاملات میں تاریخ اچھی راہنما نہیں ہے۔ تاریخ کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخ اکثر اس وقت کے حکمرانوں کے لئے موزوں تیار شدہ کہانیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے منھ نہیں موڑنا چاہیے کہ قرآن وسنت کوئی سزا تجویز نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ ہم میں سے کسی کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان گناہوں کی وجہ سے دوسروں کو سزائے موت دیں۔ یہ معاملہ اللہ تعالی اور ایک مسلمان کے مابین ہے۔ آئیے ہم وعدہ کریں کہ جو کام اللہ کے دست قدرت میں ہے اسے اسی کے حوالہ کریں اور اس میں دخل اندازی نہ کریں۔ آئیے ہم قرآن و حدیث کی بنیاد پر تمام تکفیری سزاؤں اور ردہ جنگوں پر پابندی عائد کریں۔
میڈم صدر !
۷۔ اسلامی تاریخ میں طویل عرصے تک ، خود کو خلیفہ کہنے والے مسلمان بادشاہ سامراجی جنگوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے علاقوں کا پھیلاو اور وسیع کرتے رہے۔ علمائے دین نے اس زمانے میں مسلم صحیفوں کی ترجمانی اس انداز سے کی تھی جو ان اوقات کے مطابق تھی۔ ان جنگوں کو اسلام کے محاذوں کو وسعت دینے کے لئے جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا گیا۔ اب ہم جدید قومی ریاستوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے بین الاقوامی تعلقات اقوام متحدہ کے چارٹر کے رہنمائی اصول کے پابند ہیں جس پر پوری مسلم اکثریتی ریاستوں سمیت پوری دنیا نے دستخط کیے ہیں۔ آج کسی بھی ریاست کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ نئے علاقوں کو فتح کرے اور وہاں اپنی حکمرانی قائم کرے جیسا کہ بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں تک معمول تھا۔ لہذا یہ فکر کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کو انجام دینے کے لیے سال میں کم از کم ایک بار جہاد کرنا چاہئے، اس فکر کو ترک کر دینا چاہیے، اس سے قطع نظر کے اس فکر کو امام ابو ابو حامد محمد الغزالی (1058 تا 1111 عیسوی) جیسے قد آور عالم دین نے لازمی قرار دیا تھا۔ اس میں شائبہ ہے کہ اس طرح کی تشریحات کرتے وقت بھی کسی طرح کی نقلی دلیل وجواز شامل رہی ہو ۔ اس دور میں یہ بالکل ناقابل عمل ہے اور خدا ہمیں ناممکن کام کو انجام دینے کا بوجھ ہم پرنہیں ڈالتا (قرآن 2: 286)۔ قرون وسطی کی اس طرح کی تشریحات جو تشدد اور نفرت پر ابھارتیں ہیں انہیں مدرسہ کی نصابی کتب سے ختم کردیا جانا چاہئے۔
۸۔ نہ تو قرآن میں نہ ہی حدیث میں مسلمانوں کے لئے عالمی خلافت کے مطالبہ کی کوئی صحیفی اجازت ہے۔ رواداری پر مبنی جدید ریاستیں میثاق مدینہ کے فراہم کردہ آئین کے تحت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ تیار کردہ پہلی اسلامی ریاست کے مطابق ہیں۔ مسلمانوں کو عالمی خلافت کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ مسلم اکثریتی اقوام قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں آپسی بھائی چارے کے جذبے میں زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کا تعاون کرسکتے ہیں اور یہاں تک کہ یوروپی یونین اور دیگر علاقائی گروہوں کی طرز پر مسلمان ریاستوں کی مشترکہ دولت تشکیل دے سکتے ہیں۔خلافت عثمانیہ کی تحفظ کی خاطر ہندوستان میں تحریک خلافت نے ایک صدی قبل جو جذبات پیدا کیے تھے وہ اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اس تحریک کے عدم جواز کا نئے سرے سے مطالعہ کیا جائے اور اس کی کوتاہیوں کو منظر عام لایا جائے۔
۹۔ جدید جمہوریت قرآن کریم کی تعلیم ‘‘امرھم شوری بینھم’’ کی نصیحت کی تکمیل ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جن ممالک میں وہ رہتے ہیں خواہ وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ یہ صحیح ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ابتدائی تیس سالوں کے دوران ہی اسلامی تاریخ میں اقتدار کی منتقلی جمہوری انداز میں ہوئی ہو۔ اس وقت سے لے کر اب تک امرھم شوری بینھم کا قرآنی حکم (شوری 42:38) پر عمل نہیں ہو رہا ہے ۔ قرآن کے مکمل انسانی مساوات کے پیغام (الحجرات :۴۹:۱۳) کے ساتھ ساتھ امرھم شوری بینھم نے جدید جمہوریت کا کامل نظریہ فراہم کیا۔ لیکن ان دونوں قرآنی احکام پوری اسلامی تاریخ میں نظر انداز کیا گیا ۔ہماری تاریخ بڑے پیمانے پر استبداد پسند حکمرانوں کی کہانی ہے جو تقویٰ کے لباس پہنے ہوئے ہیں اور بیشتر علمائے کرام نے قرآن کی آفاقی ہدایتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے گمراہ کن فتووں کے ساتھ ان کے آمرانہ اور سامراج کی حمایت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں آج بھی بہت کم مسلم ممالک ایک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جمہوریت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ جہادی نظریات کے حاملین اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں کہ جمہوریت طاغوتی نظام ہے، لیکن اب یہ زیادہ تر اسلام دشمن یا مغربی سامراج کے ایجنٹ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس کو مسترد کریں اور اس کا پر زور رد کریں۔ جمہوریت اسلامی طرز حکمرانی کی بہترین روایات میں سے ہے۔ ہمارے پہلے چار خلفاء ، خلفائے راشدین کا انتخاب جمہوری طور پر پورے مسلمانوں کی اتفاق رائے سے ہوا تھا۔ تشدد کی تعلیم دینے والی نظریات جو مسلمانوں کو دعوت دیتیں ہیں کہ وہ حکومت الہیہ یا اقامت دین کے لیے جد وجہد کریں انہیں پوری طرح مسترد کردینا چاہیے ۔ جمہوریت ہمارے لیے خدا کی طرف سے منتخب کردہ راستہ ہے اور اسی کی پیروی ہمارے سلف صالحین نے اس وقت تک کی جب تک وہ کر سکتے تھے۔ ان سلف صالحین کی مخالفت میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی تین دہائیوں کے جمہوریت کے نظام کو ظالمانہ آمروں نے مغلوب کیا جس نے شاہی طرز کا موروثی خلافت قائم کیا۔ چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف لڑے اور امام حسین نے خلافت کو موروثی بادشاہت میں بدلنے والی نظام کے خلاف اپنی جان تک کی قربانی پیش کردی۔
۱۰۔ اسلام دنیا پر تسلط قائم کرنے کامطلق العنان سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ اگرچہ اسلام ہماری زندگی کے مختلف معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر نجات کا روحانی راستہ ہے جسے خدا نے انسانوں کے پاس مختلف انبیاء کے ذریعے بھیجا ہے (قرآن 5:48) ، سب بلا تفریق (قرآن 2: 136 ، 21:25 ، 21:92)۔ خدا نے ہم سے نیک اعمال انجام دینے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تعلیم دیا ہے (قرآن 2:148 ، 23:61) اور اسی چیز پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ چونکہ قرآن تمام سابقہ عقائد کی تصدیق اور توثیق کرنے آیا تھا، لہذا ہم دوسرے مذاہب کا احترام اور اسی مقدس راہ کی دعوت دینے والوں کو قبول کرسکتے ہیں۔ اسلام دیگر مذاہب میں سب سے زیادہ رواداری پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کو لوگوں میں سب سے زیادہ تکثیر پسند ہونا چاہئے۔
۱۱۔ تمام مذہبی گروہوں کا فیصلہ ان کی اپنی شریعت کی بنیاد پر قیامت کے دن کیا جائے گا۔ لہذا یہ کہنا کہ مسلمان ہی جنت میں جائیں گے یہ بے بنیاد ہے۔ قرآن نے خاص طور پر یہودی جیسی سابقہ مذہبی گروہوں کی مثال پیش کرتے ہوئے ایسے خیالات کی ممانعت کی ہے جو اپنے آپ کو "منتخب لوگ" سمجھتے ہیں۔ در حقیقت قرآن نے ان یہودیوں کے دعویٰ کو خارج کر دیا جو جنت کو صرف اپنے لیے خاص مانتے تھے (2:94) ۔ خدا تمام مذہبی گروہوں کا ان کے اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرے گا جو ان کو دیئے گئے ہیں (قرآن 5:48)۔ یہاں کوئی منتخب قوم نہیں جو اکیلے ہی جنت میں جائیں گے۔ مسلمانوں کے پاس کسی دوسرے مذہبی گروہ کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
میڈم صدر!
۱۲۔ الولاء والبراء کا عقیدہ بنیاد پرست عناصر کے ذریعہ ہمارے مدارس بالخصوص سعودی عرب میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ موجودہ معاشرے میں انتہائی پیچیدہ اور عالمی معاشرے میں غلط فہمی کے ساتھ ساتھ غیر عملی بھی ہے۔ آج یہ ممکن نہیں کہ صرف مسلمانوں کے ساتھ رشتے قائم کیے جائیں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات توڑ لیے جائیں ۔ مدارس کے نصاب جو اس طرح کی تعلیمات دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے نصاب کی ترمیم کریں کیونکہ یہ ہمارے بچوں کو سماج میں ایک باوقار زندگی جینے سے محروم رکھتےہیں۔ اس عقیدے کا مطلب ہو سکتا ہے مسلمانوں کی آپسی وابستگی اور اخو ت ورواداری جس کی قرآن بھی ترویج واشاعت کرتا ہے ۔(قرآن 49.10) مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسری مذہبی جماعتوں سے تعلقات ختم کر دیا جائے ۔ قرآن تمام انسانوں کو یکساں طور پر عزت و احترام دیتا ہے (قرآن 17:70)۔
۱۳۔ الولاء والبراء کا عقیدہ جس کی غلط تعبیرات کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوتا ہے یہ عقیدہ تکفیر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو دوسرے فرقے کے مسلمانوں سے بھی تعلقات منقطع کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بہت سارے مسلم علماء دوسرے مسلم فرقوں کو کافر قرار دینے کے لئے تکفیر کے نظریے کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دوسروں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں اور پھر ان کو قتل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شیعوں ، احمدیوں اور صوفیوں پر حملے تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ در حقیقت ، مشرق وسطی میں یہ سنی شیعہ رسہ کشی ہی تھی جس نے نام نہاد اسلامی ریاست کے عروج کو بڑی مدد کی۔ علمائے کرام کو ان دونوں عقائد کے خلاف پرزور آواز اٹھانا چاہیے اورجس طرز عمل کے ساتھ انہیں انجام دیا جا رہا ہے اسے غیر اسلامی فعل قرار دینا چاہیے۔
۱۴۔ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ایک خوبصورت اسلامی عقیدہ ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اس کو دوسرے پر جبر کرکے زیر عمل نہیں لایا جا سکتا ۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معروف اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی نے واضح کیا ہے کہ معروف اصطلاح میں اسے کہتے ہیں جو عالمی سطح پر سب کے نزدیک مقبول ودرست ہو اور منکر وہ ہے جو جس کو عالمی سطح پر لوگوں نے غلط مانا ہو۔ اس نظریے میں لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اور انہیں کفر کرنے سے جبری طور پر روکنا شامل نہیں ہے۔ جو لوگ اس نظریے کو مذہب کے معاملات میں طاقت کا استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہیں اور ان کی مخالفت کی جانی چاہئے۔ علمائے کرام کو معروف اور منکر جیسی اصطلاحات کے بارے میں ان کی تفہیم پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس نظریہ کو نافذ کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کے خلاف بات کرنا ہوگا۔
۱۵۔ لا اکراہ فی الدین جس کا مطلب ہے دین میں کوئی جبر نہیں یہ ایک مطلق اور آفاقی قرآنی نظریہ ہے اور کسی بھی حالت میں اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کی متعدد دوسری آیات جیسے 10:99 اور 18: 29 اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔ آیت 18:29 اسی نظریہ پرزور ڈالتا ہے : "وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ’’۔ علمائے کرام کو قرآن کی ان آفاقی تعلیمات کو نظرانداز کرنا چھوڑنا چاہئے ، جیسا کہ وہ اب کرتے ہیں ، اور اس کے بجائے اگر وہ واقعتا جہادزم کے خلاف کوئی رد بیانی کرنا چاہتے ہیں تو ان آفاقی عدم جبر واکراہ کی تعلیمات کی تشہیر کرنا شروع کردیں۔
۱۶۔ تمام مذہبی گروہوں کو اہل کتاب سمجھا جانا چاہئے جن کے ساتھ ازدواجی تعلقات سمیت انتہائی گہرے تعلقات تک کی اجازت ہے۔ کیونکہ قرآن کے مطابق، خدا نے تمام قوموں میں انبیا کو بھیجا ہے، ان پر وحی نازل کی جو کتابی شکل میں جمع ہوئی۔ ان میں سے کچھ انبیاء کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے لیکن بہتوں کا نہیں۔ ایک حدیث کے مطابق انبیا کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں آئے تھے اور اپنے وقت اور مقام کی زبانوں میں خدا کا پیغام لاتے تھے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا واقعتا قرآن میں اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔
‘‘اور ہر امت میں ایک رسول ہوا جب ان کا رسول ان کے پاس آتا ان پر انصاف کا فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر ظلم نہیں ہوتا’’ (۱۰:۴۷)
‘‘اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے کہ جن میں کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا اور کسی رسول کو نہیں پہنچتا کہ کوئی نشانی لے آئے بے حکم خدا کے، پھر جب اللہ کا حکم آئے گا سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور باطل والوں کا وہاں خسارہ’’ (۴۰:۴۸)
‘‘یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو اتارا گیا ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کئے گئے موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ اور جو عطا کئے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں’’ (۲:۱۳۶)
‘‘اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے اور سب شہر کے ساکن تھے تو یہ لوگ زمین پرچلے نہیں تو دیکھتے ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر تو کیا تمہیں عقل نہیں،’’(۱۲:۱۰۹)
‘‘سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے،’’ (۲:۲۸۵)
روایتی اسلامی تھیولوجی قرآن مجید کی ان آیات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ امن اور تکثیریت کے ایک نئے واقعی اسلامی تھیولوجی کو تیار کرتے ہوئے علمائے کرام کو خدا کے ان احکام کو دھیان میں رکھنا چاہئے جو ہمارے وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی ہوگا اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے لڑنے میں ہماری مدد بھی کرے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے اسلام ایک ایسے سماجی نظریہ پر زور دیں جو تمام لوگوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کرے۔ابتدائی دور میں جب مسلمانوں کو اسلحہ سے اپنے دفاع کی اجازت دی گئی تھی تو ان سے کہا گیا تھا کہ یہ اس وقت ضروری ہے کہ وہ تمام مذہبی قوموں کی مذہبی آزادی کے تحفظ کی خاطر لڑیں۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے ‘‘اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے’’(22:40)۔
اس آیت میں واضح طور پر مسلمانوں کو تمام لوگوں کی مذہبی آزادی کے لیے لڑنے کو کہا جا رہا ہے نہ کہ صرف مسلم مذہبی آزادی کے لئے۔ لہٰذا ایسے میں مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر اس جگہ آواز اٹھائیں جہاں کہیں بھی مذہبی اقلیتیں اذیتوں سے دو چار ہوتے ہوں، بالخصوص ان ممالک میں جو مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ مذہبی آزادی اور حقوق انسانی دونوں ناقابل تقسیم ہیں لہذا اس نقطہ نظر کو قول و عمل کے ذریعے پھیلانا علماء کرام کا کام ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص علماء ہند کے لئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں رہ رہے ہندو اورعیسائی اقلیتوں کے لئے کھڑے ہوں۔
۱۸۔ اسلام میں خود کشی پر پابندی ہے (4:29) یہ ہر حالت میں حرام ہے۔ یہ اتنا بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنے ایک صحابی کی جنہوں نے زخم کی شدت ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی ان کی نماز جنازہ میں شرکت سے انکار کردیا جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی فوج کے جانب سے جنگ لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔ خود کشی کو محض مسلمان جنگی تدابیر کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ دلیل دینا کہ وہ مسلمان جو بے بس ہیں اور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار بھی نہیں ہے وہ اپنے جسموں کو نام نہاد شہادت کےحصول کےلیے جنگی اسلحہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں یہ دلیل سراسر غلط ہے۔ یہ دلیل لغو ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں واضح ہدایت موجود ہیں جو اس دلیل کو خارج کرتے ہیں۔علماء کرام کو ضرور اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور اسلام میں اس کی اصل حیثیت کو تشہیر کرنا چاہیے۔ہندوستان میں ہمارے لئے یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ پاکستان کے دیوبندی اور وہابی مدارس میں جہاں ہمارے ہی مدرسوں کی طرح کتابیں استعمال کی جاتی ہیں، اسلامی تعلیمات حاصل کرنے والے طالبان خود کشی کو جنگ کا جائز حربہ گمان کرتے ہیں۔ظاہر ہے علماء کرام نے اپنے شاگردوں کو اس بات کی بہتر وضاحت نہیں کی کہ اسلام نے خود کشی کے ساتھ ساتھ بےگناہوں کا قتل کرنا بھی کس شدت سے حرام قرار دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment