Sunday, March 1, 2020

Quran mentions Jesus and Mary with Respect and Preaches Good relations with Christians قرآن میں حضرت عیسی ٰعلیہ السلام اور عیسائیوں کا ذکر خیر


سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن ایک تکثیری معاشرے کی تشکیل کا حامی ہے اور اس لئے اس میں تمام مذاہب کا احترام اور دوسروں کے عقائد کے احترام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔قرآن نے  تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانے کو ایک مسلمان کے لئے فرض قراردیاہے۔ قرآن میں تمام قوموں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے  اور دوسرے مذاہب کے دیوی دیوتاؤں کو برابھلاکہنے سے منع کیاہے۔ قرآن میں دیگر پیغمبروں کا بھی ذکر کیاگیاہے کیونکہ وہ سب ایک ہی خدا کی پرستش کی تعلیم دیتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآ ن قدرے تفصیل سے کرتاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں بڑے احترام سے آیاہے۔ اسی طرح قرآن میں حضرت  عیسی ٰ کے پیروکاروں  (عیسائیوں) کا ذکر بھی  اچھے الفاظ میں کیاگیاہے۔ عیسائیوں کی اعلی انسانی صفات اور ان کے جذبہ ء ایثار و خدمت خلق کا ذکر بھی قرآن کرتاہے۔
حضرت عیسی  ٰ علیہ السلام خدا کے برگزیدہ نبی اور رسول تھے۔انہیں اللہ نے حضرت مریم کے بطن سے پیداکیا۔ انہیں کئی معچزے عطاکئے یعنی وہ  کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے شفادے  دیتے تھے، مردوں کو زندہ کردیتے تھے، اور مٹی سے پرندہ بنانے کا اس میں پھونک مارکر اسے سچ مچ کا پرندہ بنادیتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں اللہ نے غیب کا علم بھی عطاکیاتھا۔ وہ کسی کے بھی متعلق بتادیتے تھے کہ وہ کیاکھاکر آیاہے اور گھر میں کیا رکھ کر آیاہے۔
”جب کہے گا اللہ اے عیسی بن مریم  یاد کرو  میرا احسان  جو ہوا  تجھ پر اور تیری ماں  پر جب مدد کی  میٰں تیری روح پاک سے  تو کلام کرتاتھا  لوگوں  سے گود میں  اور بڑی عمر میں  اور جب سکھائی میں تجھ  کو کتاب  اور تہ کی باتیں  اور توریت  اور انجیل  اور جب تو بناتا تھا گارے سے  جانور  کی صورت  میرے حکم سے  پھر پھونک  مارتاتھا  اس میں تو  ہوجاتا  اڑنے  والا  میرے حکم سے  اور اچھا کرتاتھا  مادر زاد اندھے کو  اور کوڑھی کو میرے حکم سے  اور جب نکال کھڑا کرتاتھا  مردوں  کو میرے حکم سے۔“ (المائدہ)
مندرجہ بالا سطور میں قرآن  بڑی فراخدلی  سے حضرت عیسی  علیہ السلام  کے معجزوں کا ذکر کرتا ہے جو انہوں نے  اللہ کے حکم سے دکھائے۔ لہذا، حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں میں آج بھی وہی جذبہ خدمت خلق پایاجاتاہے۔ وہ کوڑھیوں  اور مریضوں کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے مشنری بنارکھے ہیں۔ خدمت خلق ہی ان کی زندگی کا مقصد ہے اور اسے وہ ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔آج پوری دنیا میں وہ فلاحی کاموں کے لئے جانے جاتے ہیں  اور خدمت خلق میں وہ تفریق نہیں کرتے۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کے لئے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ان کی رحم دلی اور مہربانیوں کا ذکر قرآن نے بھی کیاہے۔
”اور پیچھے بھیجا ہم نے  عیسیٰ ان مریم کو، ہم نے دی  انجیل اس کو  اور رکھ دی  اس کے ساتھ چلنے  والوں  کے دل میں نرمی  اور مہربانی۔“  (الحدید:  26-27)
قرآن تمام اہل کتاب کو بھی اہل ایمان میں شامل کرتاہے  کیونکہ وہ سب ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ ہاں ہر مذہب میں کچھ لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو عقیدہ کی خرابی کی بنا پر شرک اور کفر کرتے ہیں۔ قرآن صرف ان لوگوں کی نشاندہی کرتاہے۔ وہ پوری قوم کو گمراہ اور کافر قرار نہیں دیتا۔لہذا، وہ حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کے پیروکاروں (عیسائیوں) کو مجموعی طور پر گمراہ قرار نہیں دیتا بلکہ ان میں صرف ان لوگوں کو ہی  گمراہ قرار دیتاہے جو حضرت عیسی علیہ السلام  کی تعلیمات سے بھٹک گئے ہیں۔
”اہل کتاب میں ایک فرقہ ہے سیدھی راہ پر، پڑھتے ہیں  آیتیں اللہ کی راتوں کے وقت اور وہ سجدے کرتے  ہیں ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور قیامت پر  اور حکم کرتے ہیں  اچھی بات کا اور منع کرتے ہیں برے کاموں سے۔“(آل عمران: 113-114)
”اور کتاب والوں  میں بعضے وہ بھی ہیں جو ایمان لائے  اللہ پر  اور جو اترا تمہاری طرف  اور جو اترا ن کی طرف عاجزی کرتے ہیں  اللہ کے آگے۔“ (آل عمران:  199)
ایسا نہیں ہے کہ قرآن صرف اہل کتاب میں سے ہی کچھ لوگوں گو  ایمان سے خالی قرار دیتاہے  کیونکہ وہ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور صرف اس کے آگے عاجزی نہیں کرتے بلکہ  قرآن مسلمانوں کے متعلق بھی یہی کہتاہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں اور ان کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا۔
”کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے  تو کہہ تم ایمان نہیں لائے  پر تم کہو ہم مسلمان ہوئے اور ابھی  نہیں داخل ہوا ایمان تمہارے دلوں میں۔“ (الحجرات:  12)
قرآن کی اس آیت سے یہ واضح ہوتاہے کہ اللہ انسانوں کے ان کی قوم کے  نام سے نہیں بلکہ ان کے ایمان کی بنیاد پر فیصلہ کرتاہے۔ اہل کتاب میں بھی ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ایک خدا میں یقین رکھتے ہیں  اور مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن خود گواہی دیتاہے کہ وہ ابھی پوری طرح ایمان والے نہیں ہوئے ہیں۔ وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔اس لئے صرف فرقے کی بنا پر یہ رائے قائم کرنا کہ فلاں فرقہ کافر ہے اور فلاں جنتی خوش فہمی کی بنا پرہے ۔
قرآن نے عیسائیوں کو ایک مسلم معاشرے یا مسلم ریاست میں تمام مذہبی حقوق دئیے ہیں کیونکہ اللہ انہیں بھی مؤحد مانتاہے اور انہیں بھی قرآن میں مسلمان کہہ کر پکارتاہے۔ قرآن میں واضح طور پر کہاگیاہے کہ وہ ایک مسلم ریاست میں اپنی مذہبی کتاب انجیل کے احکام کے مطابق زندگی گذارنے اور اپنے سماجی اور نجی معاملات انجیل کی ہدایتوں کے مطابق ادا کرنے کے مجاز ہونگے۔ قرآن میں اس مفہوم کی کئی آیتیں ہیں۔
”کہہ دے اے اہل کتاب  تم کسی راہ پر نہیں  جب تک قائم نہ کرو توریت اور انجیل  کو اور جو تم  پر اترا  تمہارے  رب کی طرف سے۔“ (المائدہ:  ۸۶)
”اور چاہئے کہ حکم کریں  انجیل والے  موافق اس کے جو کہ اتارا اللہ نے  اس میں  اور جو کوئی  حکم نہ کرے  موافق اس کے جو کہ اتارا اللہ نے سو وہی  لوگ نافرمان ہیں  اور تجھ پر اتاری ہم نے  کتاب سچی  تصدیق کرنے  والی سابقہ کتابوں  کی اور ان  کے مضامین پر نگہبانی  سو تو حکم کر ان میں موافق  اس کے جو اتارا اللہ نے اور ان  کی خوش پر مت چل  چھوڑ  کر سیدھا راستہ  جو تیرے پاس آیا۔ ہر ایک کو تم میں سے دیا  ہم نے ایک دستور  اور راہ  اور اللہ چاہتا  تو تم  کو ایک دین پر کردیتا۔“ (المائدہ 48)
ان آیتوں میں بہت ہی واضح الفاظ میں اللہ اہل کتاب  (عیسائیوں اور یہودیوں) سے کہتاہے کہ وہ لوگ ایک اسلامی ریاست میں  اپنے مذہبی صحیفوں اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں  اور پھر اپنے رسول سے کہتاہے کہ آپ اس کے کتاب کے مطابق مسلمانوں کے معاملات حل کریں جو آپ پر اتری ہے۔ اس طرح قرآن اسلامی ریاست میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مذہبی حقوق عطا کرتاہے۔ اللہ کھلے طو رپر کہتاہے کہ اس نے ہر قوم کو ایک الگ شریعت  دی  وہ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک دین پر کردیتا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اہل کتاب کو اسلامی معاشرے میں  یکساں درجہ دیتاہے۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی تفریق اور عدم رواداری اور بے انصافی سے مسلمانوں کو منع کرتاہے۔ عقیدے میں جو اختلاف ہے انہیں دور کرنے  کے لئے وہ آپسی مذاکرے اور مجادلے  کی وکالت کرتاہے۔ قرآن کہتاہے کہ اہل کتاب میں ان لوگوں کو چھوڑ کر جو مسلمانوں کے تئیں نفرت اور عداوت کا جذبہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت نہیں چاہتے، ان لوگوں کے ساتھ آپسی تبادلہ خیال اور مذاکرے کے ساتھ اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
”اہل کتاب سے  مناسب  طرح سے  مذاکرہ کرو سوائے  ان کے ساتھ جو بے انصاف ہیں اور یوں کہو کہ ہم مانتے ہیں  جو اترا  ہمارے لئے اور جو اترا تمہارے لئے  اور بندگی ہماری  اور تمہاری ایک ہی کے لئے ہے اور ہم اسی کے حکم پر چلتے ہیں۔“ (العنکبوت:  46)
قرآن حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہ السلام  کا ذکر بھی بہت احترام کے ساتھ کرتاہے۔ انہیں تمام دنیا کی عورتوں میں  افضل اور صدیقہ کہتاہے۔
”اور جب فرشتے بولے  ا ے مریم  اللہ نے تجھ کو پسند  کیا اور بنایا تجھ پاک  اور پسند کیا تجھکو تمام دنیا کی عورتوں پر۔“ (آ ل عمران: 42-43)
اس آیت طرح کی اور بھی کئی آیتیں قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام  کے متعلق  ہیں جن میں ان کی بزرگی  اور عظمت بیان کرتی ہیں ر اور عیسائیوں  وحدت پرستی  اور ان کی انسان نوازی، خدمت خلق کے کاموں اور ان کی فطری نرم خوئی کا ذکر آتاہے۔
قرآن میں  حضرت عیسٰی علیہ السلام  اور عیسائیوں کے ذکر خیر کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اورعیسائیوں میں  امن و صلح  اور بھائی چارہ  کا ماحول قائم ہو۔ ان کے ساتھ تبادلہ خیال ہو اور پر امن مذاکرات کے ذریعے سے آپسی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش ہو۔ اسلامی معاشرے میں انہیں یکساں درجہ اور مواقع حاصل ہوں اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کاحق دیاجائے۔

No comments:

Post a Comment