Wednesday, March 4, 2020

Is It Not Compulsory For Women To Adopt The Path of Patience, Thankfulness and Respect for Their Husbands? کیاعورتوں کے لیے لازم نہیں کہ اپنے شوہروں کے تئیں‎قناعت، صبروتحمل اور شکران نعمت کا دامن نہ چھوڑیں؟



کنیز عائشہ، نیو ایج اسلام
اب ہمارے مسلم معاشرے میں بھی شادی کو خانہ آبادی کی بجائے بربادی سے تعبیر کیا جانے لگا ہے، نوجوان نسل کو ایسا لگنے لگا ہے گویا کہ ازدواجی زندگی کوئی قید خانہ ہو ، اور اسی طرح صنف مخالف سے ناجائز تعلقات آزادی کا احساس دلاتی ہو ۔ ایسا معلوم پڑ رہا ہے کہ کنوارے اپنی زندگی خوش مزاجی کے ساتھ آزادانہ طور پر جی رہے ہیں اور شادی شدہ گھر کو قید خانہ سمجھ کر زندگی کاٹ ہی رہے ہیں، بچے بچیاں شادی، بیاہ کو پھندا سمجھ کر نکاح سے دور اور معاذ اللہ آنکھ، کان، ہاتھ اور زبان کے گناہوں  سے قریب ہوتے جا رہے ہیں آخر ایسا کیوں؟؟
  کیا اسلام نے شادی کو ذریعہ سکون و راحت سے تعبیر نہیں کیا؟ کیا شارح و داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بر وقت نکاح کے ساتھ پاکیزہ زندگی گزارنے کی تاکید نہیں کی؟؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے نکاح کو نصف ایمان نہیں قرار دیا؟؟
ضرور بالضرور!!
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: (اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے)( 30:21)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پرسکون اور خوشحال زندگی کے لیے ہی عورتوں کی اللہ تعالی نے تخلیق فرمائی مگر اس کی ایک صورت بتائی کہ یہ جائز طریقے پر ہو اور اس کے ذریعے دونوں سکون قلبی وذہنی حاصل کریں ، اور اس طرح شادی بربادی نہیں بلکہ خوشحالی کا ذریعہ بن جائے ۔
مگر! افسوس صدہا افسوس کہ........اب اسلامی معاشرے سے بھی یہ سکون کالمعدوم ہو گیا ہے، آخر کیوں؟؟
     کیا اس پر ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنے اور اس بڑی پریشانی، ذہنی و قلبی الجھن سے خود کو نجات دینے کی سخت ضرورت نہیں؟؟
جی ہاں، ضرور ہمیں اس بڑی الجھن کے سد باب کی سخت ضرورت ہے کیوں کہ آج نہیں بلکہ آج سے تقریباً 55/60 سال پہلے کی رپورٹ یہ کہ......”دنیا میں پاگل پن کی سب سے بڑی وجہ جھگڑالو بیبیاں ہیں، کسی نے اس حقیقت کی تفصیل چاہی تو اس نے بتایا کہ اڑتالیس فیصد پاگل مرد اپنی جھگڑالو بیویوں  کی وجہ سے پاگل ہوئے ہیں - کیوں کہ یہ مرد حساس ہوتے ہیں اس لیے وہ نہ تو اپنی بیوی کو زود و کوب کرتے اور نہ جھڑکتے ہیں جس کا لازمی اثر ذہنی پریشانیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے - پھر میں نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کہا یہی وجہ ہے کہ مردوں کی بنسبت عورتیں کم پاگل ہوتی ہیں“ - (ماہ طیبہ پاکستان، جولائی 1963ء بحوالہ خطبات اسلام 163)
اللہ، اللہ!!
    اسی لیے آج میں اپنی بہنوں سے مخاطب ہوں کہ........... ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے مردوں کو اس ذہنی و قلبی پریشانی سے کیسے بچانا ہے -
گنہ گار شوہر کو بدلہ دینے کے لیے آپ خود بھی گنہ گار نہ بنیں!
بہنو!!
 مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے شوہروں سے سچی محبت کرتی ہو لیکن وہ وَ عَاشِرُوْهُنَّ  بِالْمَعْرُوْفِ  میں جو ھُنّ کی مرجع ہیں ان کے علاوہ سب کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کرتے ہیں لیکن بیوی کو تیور دکھاتے ہیں اس لیے آپ ان سے لڑتی ہیں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ سے جسے تعبیر دی گئی ہے آج اسی کے لیے شوہروں کے پاس وقت نہیں ہے اسی لیے آپ ان پر بھڑک جاتی ہیں، مردوں کی یہ سب کوتاہیاں واقعی سخت قابلِ گرفت ہیں، مگر....... آج میں چوں کہ ان سے نہیں آپ سے مخاطب ہوں اسی لیے میں سب سے پہلی آپ کو یہ یاد دلا دوں کہ اگر شوہر اپنے حقوق کو ادا نہ کرے تو اس کی سزا تو دنیا و آخرت میں اسے ملے گی ہی لیکن خیال رہے کہ..... شوہر کی کوتاہیوں کی وجہ آپ پر جو حقوق زوج وارد ہو رہے ہیں وہ قطعی معاف نہیں ہوتے بلکہ آپ کے لیے واجب ہے کہ شوہر جیسا بھی ہو آپ اپنے بیوی ہونے کا حق بخوشی ادا کریں ورنہ آپ معذور نہیں بلکہ عذاب الٰہی میں محصور ہوں گی -
شوہر کا ظلم آپ کے لیے بلندیِ درجات کا ذریعہ ہے!!
      آپ کہیں گی کہ....... مگر! یہ تو بہت مشکل ہے کہ شوہر ستائے اور ہم اس کے حقوق بخوشی ادا کریں، تو میری بہنا یاد رکھیں کہ یہی تو اسلامی معاشرے کی علامت، مسلمان عورتوں کی پہچان ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا :«اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ» یعنی جو حقیقی و عملی مسلمہ، مؤمنہ عورت ہوتی ہے وہ قانتہ یعنی جو مقدر ہو اسی پر راضی رہنے والی ہوتی ہے ساتھ ہی وہ صابرہ بھی ہوتی ہے یعنی اسے حق اللہ ہو یا حقوق العباد کسی کی ادائیگی میں چاہے جتنی مشکلات آئیں سب کا خندہ پیشانی سامنا کرتی ہیں.. الخ
سبحان اللہ، سبحان اللہ!!
    یہ کتنی پیاری آیت ہے آپ کے لیے کہ اگر شوہر آپ کے ناموافق ہیں تبھی تو آپ رضائے رب و رسول کے لیے اسی پر قناعت کر رہی ہیں، شوہر اگر آپ کو ستا رہے ہیں جبھی تو آپ کے صبر کی آزمائش ہو رہی ہے کہ آپ اس کے حق کو جو اللہ نے مقرر کیا ہے ادا کرتی ہیں یا نہیں - پھر اگر آپ اس آزمائش میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو آقائے کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے آپ کو بڑی زبردست بشارت عطا فرمائی ہے کہ : ‘‘جو عورت اپنے خاوند کے برے اخلاق پر صبر کرے، اللہ تعالٰی اسے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رحمتہ اللہ علیہا کے ثواب کی مثل عطا فرمائے گا’’ - {احیاء العلوم، حصہ دوم، ص }
    اب آپ بتائیں! کیا شوہر کے ظلم و زیادتی پر آپ صبر کر کے حضرت آسیہ کے جوار میں مکان بنانا گوارا نہیں کریں گی؟؟ کیا اب بھی شوہر کو گنہ گار ثابت کر کے اپنے حقوق کی ادائیگی سے راہ فرار اختیار کریں گی؟؟ کیا آج علم ہونے پر شوہر کے جو حقوق آپ نے تلف کیے ہیں ان پر معافی نہیں مانگیں گی؟؟
ضرور، ہم میں سے ہر بہن کی یہی خواہش ہے تو چلیں آج سے ہم عہد کر لیتے ہیں بالخصوص شوہر کے معاملے میں صابرہ، قانتہ بن کر حضرت آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سایہ رحمت میں جگہ بنائیں گے - (ان شاء اللہ عزوجل)
تحمل (قوت برداشت) ظالم کو بھی رحم دل بنا دیتی ہے!!
   یہ تو آخرت کا ثواب ہے اگر آپ واقعتاً شوہر کی زیادتیوں پر صبر کریں گی تو دنیا میں بھی اللہ رب العزت آپ کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا اور آپ کے صبر ہی کے سبب شوہر کے دل میں الفت و محبت اور نرمی ڈال دے گا جس کی گواہی خود رب رحمٰن نے دیا ہے :”اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(حٰمٓ سجدہ، ۳۴)“ یعنی برائی کو بھلائی سے ٹالو جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔
سبحان اللہ!
   اس آیت میں ہمارے رب تعالٰی نے ہمیں کتنے نفیس انداز میں قوت برداشت کی اہمیت سمجھاتے ہوئے بتایا کہ اگر صبر سے کام لیتے ہوئے برائی یعنی غصہ، بد کلامی وغیرہ کا بدلہ صبر سے دوگی تو وہی غصیلا انسان تمھارا سچا ہمدرد بن جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ تمھیں اپنے اندر کمال کا قوت برداشت پیدا کرنا ہوگا حتٰی کہ تمھاری کیفیت ہر کسی کے ساتھ یہ ہو جائے.......
بد کریں ہر دم برائی
تم کہو ان کا بھلا ہو
اے کاش!
    تیرے دل میں اتر جائے میری بات اور میری ہر بہن خود کو صابرہ، قانتہ نیز قوت برداشت کی حاملہ بنانے کی از حد سعی تام کریں –
یہ تمام مذکورہ بالا تفصیلات ان بیویوں کے لیے تھیں جن کے شوہر ظلم و ستم کرتے ہوں حقوق کی ادائیگی نہ کرتے ہوں، اب....... ذرا وہ عورتیں غور کریں جن کے شوہر نیک ہیں، بیویوں کے حقوق میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے پھر بھی اگر آپ ان نیک حساس صفت شوہروں کو جلی کٹی سنا کر ذہنی و قلبی الجھنوں میں مبتلا کر رہی ہیں تو یاد رکھیں آپ بھی دنیا اور آخرت کے شدید الجھنوں سے چھٹکارا نہیں پا سکتیں! کیوں کہ حضور عالم غیب صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرما دیا کہ : ”جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حوریں کہتی ہیں کہ خدا تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا’’ - (ترمذی)
 یہ جنتی حوروں کی بدعا ہے اسی طرح ایسی عورتوں پر فرشتوں کی بھی لعنتیں ہوتی ہیں (صحیح مسلم) بلکہ خود اللہ رب العزت کی نا راضگی اور اس کی لعنتیں برستی ہیں ایسی ظالمہ عورتوں پر -
فلہذا، غور کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی خاطر شوہروں کے ذہنی و قلبی سکون کا خاص خیال رکھیں۔

No comments:

Post a Comment