ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
4 جنوری 2020
سی اے اے اور این آر سی پر مشتعل احتجاج نے ہمیں ایک بار پھر ہندوستانی ریاست وسیاست کی نوعیت کوسوچنے سمجھنے پر مجبور کردیا ہے۔ سیاست میں کس طرح کی تبدیلی آ چکی ہے ،یہ بات اس وقت صاف طور سے واضح ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آخر کس طرح مخصوص الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے جن کا تنہا مرکز توجہ مسلمانوں کو حاشیہ پر لانا ہے ۔ سیاسی نظام خود ہی تبدیل ہوچکی ہے، ساورکر جیسے نظریاتی لوگوں کا اکثر عوامی حلقہ میں بڑے ادب واحترام سے حوالہ دیا جانے لگا ہے ۔ لوگوں نے بخوشی اور بھاری اکثریت میں پرگیا سنگھ ٹھاکر کو ووٹ دیا ہے جس کی آئیڈیل گاندھی کے قاتل نتھوورم گوڈسے ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں کبھی بھی یہ استدلال کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ 'نئی ' حالت ہے جو 2014 میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد ہی شروع ہوا ہے ۔ حالانکہ اس دلیل میں تھوڑی حقیقت ہے، لیکن "سیکولر جمہوریہ" کی آنے والی تباہی کو کسی سیاسی جماعت کے عروج کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ایک گمراہ کن تجزیہ کے سوا کچھ نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک غیر جانبدارانہ کوشش کرنی ہوگی کہ ہم اس صورتحال میں آخر کیسے پہنچ گئے جہاں ملک کے شہریوں کے مختلف طبقات آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دست گریباں ہیں ۔
اس ملک میں سیکولر سیاست کے خلاف تعداد بڑی ہے اور اس میں حصہ لینے والی محض بی جے پی واحد پارٹی نہیں ہے یہاں تک کہ نام نہاد سیکولر جماعت بھی اس افسوس ناک صورتحال کے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔ یقینا کوئی بھی شخص ایسے بےشمار واقعات کا تذکرہ کر سکتا ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح سے غیروں جیسا سلوک کیا ہے، جس میں انہیں ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، ان کی تذلیل کی گئی ، انہیں جھوٹے طریقے سے پھنسایا گیا حتی کہ انہیں انصاف سے محروم کر دیا گیا۔ ہمیں صرف مسلمانوں کے خلاف ان پراگرامز کا سلسلہ دیکھنے کی ضرورت ہے جن کا مشاہدہ اس ملک نے تقریباً 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں کیا تھا۔ ملیانا سے ممبئی تک، کہیں بھی مسلمانوں کو بالکل بھی انصاف نہیں ملا۔ ان جرائم کے مرتکب بالکل آزاد ہیں، اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ تو اعلیٰ عہدوں پر منتخب بھی ہو چکے ہیں۔ بیشک ان تمامی کی اعلیٰ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل کی براہ راست ذمہ دار کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو آج سیکولر کے نام سے ٹوسٹ کئے جا رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کو ان کے مقام پر رکھنے پر اجماع واتفاق رہاہے۔ ایسا دو سطحوں پر کیا گیا ہے: وقتاً فوقتاً ان کے خلاف فسادات نے انہیں یہ یاد دلایا کہ وہ کمزور اقلیت ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، امتیازی قانون اور سیاست نے اسی مقاصد حاصل کرنے میں تعاون کیا ہے ۔حالانکہ ہندوستان میں بہتوں نے مسلم مخالف پروگرامز کے خلاف اپنی آواز اٹھایا ہے ، لیکن شاید ہی ایسی آواز رہی ہو جس نے اس بات کی نشاندہی کی ہو کہ کس طرح عشروں سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مخصوص اقدامات لیے جا رہے ہیں۔اس طرح کے اہم پہلو پر خاموش رہ کر انہوں نے اس طرح کے امتیازی سلوکوں کی بخوشی حمایت کی ہے ۔آج یہ کہنا ضروری ہے کہ بر سراقتدار حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے مگر بہت سارے لوگ اس وقت خاموش تھے جب سابقہ حکومتیں اسی طرح کے عمل کو انجام دے رہیں تھیں۔
آئیے ہم مسلمانوں تک ریزرویشن پالیسی نہ بڑھانے کے مکمل خیال کو سمجھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسی مسلم کمیونٹیاں ہیں جو معاشرتی اور تعلیمی سطح پر مختلف شیڈول کاسٹ کی برادریوں کے ہم پلہ ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے ہندو ہم منصبوں کی طرح ، انہیں بھی اچھوت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپنے مذہب کو اسلام میں تبدیل کرنے سے وہ رویہ بھی تبدیل نہیں ہوا جسے مسلمان ان کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور پھر بھی انہیں شیڈول کاسٹ کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اگر ایس سی کا درجہ دیا گیا تو وہ کچھ فوائد کے اہل ہوں گے جو انھیں ترقی کی راہ پر لانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ۱۹۵۰ سے (جب ہم جمہوریہ بنے) ، ایس سی زمرہ مکمل طور پر ہندوؤں کے لئے مخصوص ہے۔ بعد میں اس زمرے میں سکھوں اور بدھسٹوں کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن آج تک مسلمان اور عیسائی کو باہر رکھا گیا ہے۔اور ابھی تک کسی نے بھی اس صریح امتیازی سلوک والے قانون پر تنقید کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ کئی دہائیوں سے ہندو لبرلز اور بائیں بازو کے لوگوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہے۔ کئی دہائیوں سے اس ملک کے "سیکولر" اصول پر سوال نہیں کیا گیا ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ نام نہاد سیکولر اس وقت ضرب لگا رہے تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سکھ مذہب اور بدھ مذہب ہندو مذہب سے مختلف ہیں۔ حقیقت میں یہ دونوں ذات پات کے نظام اور اس میں شامل تمام چیزوں کے خلاف تنقیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں تو شامل کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام اور عیسائیت نہیں۔ وجہ آسان ہے: اسلام اور عیسائیت کو غیر ملکی مذاہب سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے ہندوستانی مذہبی کائناتیات کا حصہ ہیں۔ اس خیال کے ارد گرد اتفاق رائے اتنا وسیع ہے کہ انقلابی نظریہ کے حاملین نے بھی اس پالیسی کو کبھی امتیازی سلوک نہیں قرار دیا۔
ہماری عدلیہ بھی مستقل نہیں رہی۔ ۱۹۹۵ کے مشہور (یا غیر مشہور) سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کریں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندوتوا ‘‘زندگی کا ایک نظام’’ ہے۔ اس فیصلے نے ہندوتوا (ہندومت کے ایک الگ ورژن کے طور پر) اور ہندو مذہب (ہندوؤں کا روزمرہ مذہب) کے مابین فرق کو مبہم کردیا۔ اس سے قبل لوگ آزادانہ طور پر ‘ہندوتوا’ لفظ استعمال کرنے میں ہچکچاتے تھے، لیکن فیصلے نے عوامی گفتگو میں اسے ایک خاص قانونی حیثیت دے دی۔ اس کے پیچھے سپریم کورٹ کے فیصلے کی طاقت کے ساتھ، ہندوتوا اور ہندو مت کے مابین فرق کرنے کی کوئی بات نہیں تھی۔ اور اس کے باوجود ہم نے اس فیصلے کی شاید ہی کوئی مخالفت دیکھی ہے۔ اس وقت بدنما سیکولر خاموش تھے اوراب جبکہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں تو وہ اب بھی خاموش ہیں۔ ہمیں وحشت میں یاد رکھنا چاہئے کہ وہی جج جس نے یہ فیصلہ سنایا وہ بعد میں لبرلز کا ٹوسٹ بن گیا۔ ہر ایک اپنے پہلے فیصلے کو بھول گیا ۔ اب کتنی خاکساری کے ساتھ وہ جمہوریہ میں شامل متعدد اقدار کے ‘کٹاؤ’ کی مخالفت کو ہوا دے رہے ہیں۔
اترپردیش اور دیگر مقامات پر حال ہی میں مکمل مظاہرہ میں پولیس کی بربریت بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایگزیکٹو کے ایک بازو کی حیثیت سے پولیس کئی دہائیوں سے کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہی۔ مسلم مخالف تعصب بہت گہرا رہا ہے اور مختلف حکومتوں کو پولیس فورس میں اصلاحات کی یاد دلانی پڑتی ہے۔ اور پھر بھی انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ بھاگل پور سے احمد آباد تک پولیس تشدد اور بربریت کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کو کوئی انصاف نہیں ملا ہے۔ جب یہی پولیس فورس اتر پردیش میں امتیازی سلوک برت رہی ہے اور مسلم املاک کو تباہ کررہی ہے تو ہم اب کیوں شور مچ رہے ہیں؟ یہ یقینی طور پر مسلمانوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ جو حقیقت میں نیا ہے وہ بھولنے کا فن ہے جسے دانشوروں کا ایک طبقہ بخوبی فروغ دے رہا ہے۔ پولیس کی بربریت کو کسی سیاسی جماعت سے جوڑ کر وہ در حقیقت پچھلی حکومتوں کے جرائم کی صفائی کررہے ہیں جو اتنے ہی سفاک تھے جتنے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اس حکومت کے مسلمانوں کے تئیں سلوک کی مذمت کریں لیکن یہ بھی مسلمانوں کے لیے اہم ہے کہ وہ اس ظلم وبربیت کے خلاف احتجاج کریں۔ مگر ایسا کرتے وقت مسلمانوں اور دیگر افراد کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلم مخالف تعصب ایک نظامی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق کسی ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ایک بہتر کل تبھی آئے گا جب ہم اس مسئلے کو پہچان لیں گے اور اجتماعی طور پر ایسے نظام پر قابو پانے کی کوشش کریں گے جو کئی شکلوں میں مسلمانوں کے خلاف ہے۔
ارشد عالم نیوایج اسلام کے مستقل کالم نگار ہیں
No comments:
Post a Comment