Wednesday, March 4, 2020

The Quranic Reflection on Concealing the Faults of Others and Disclosing Acts of Oppression غیبت کے جواز اور عدم جواز کا بیان



کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
ارشاد باری تعالی ہے : لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ ﴿النساء﴾ ترجمہ: ‘‘اللہ تعالیٰ بہ آواز بلند بری بات کہنے کو ناپسند فرماتا ہے سوائے مظلوم (کی بات) کے اور اللہ بہت سننے والا ‘ نہایت علم والا ہے’’
اس آیت کریمہ میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے بہ آواز بلند بری بات کہنے کو ناپسند فرمایا پھر اس حکم سے مظلوم کا استثناء فرمایا اسکی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں: ایک قول ہے کہ  اللہ تعالیٰ مظلوم کے سوا کسی کے بری بات ظاہر کرنے کو ناپسند کرتا ہے لیکن مظلوم اپنے اوپر کیے ہوئے ظلم کو بیان کرسکتا ہے۔ یہ زجاج کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مظلوم ظالم کے خلاف بددعا کرسکتا ہے۔ ‘ یہ حضرت ابن عباس اور قتادہ کا قول ہے۔ تیسرا قول جو  اصم کا ہے  کہ کسی کے پوشیدہ احوال کی لوگوں کو خبر دینا جائز نہیں، تاکہ لوگ کسی کی غیبت نہ کریں، لیکن مظلوم شخص یہ بتاسکتا ہے کہ فلاں شخص نے اس کے ہاں چوری کی یا غصب کیا۔
اس آیت کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص کو برا کہنا ‘ گالی دینا ‘ خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ‘ اور کسی شخص کی غیبت کرنا یا کسی شخص کی چغلی کرنا یہ تمام امورممنوع اور ناجائز ہیں۔  لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم کے لیے ظالم کے ظلم کو بیان کرنا جائز ہے ۔
محدثین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ حدیث بیان کی ہے  کہامام ابو داؤد سلیمان بن اشعث (متوفی  ھ) روایت کرتے ہیں :
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو برا کہا اور ان کو اذیت دی ‘ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) خاموش رہے ‘ پھر ان کو دوسری دفعہ اذیت دی پھر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) خاموش رہے ‘ پھر ان کو تیسری بار اذیت دی تو حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے اس سے بدلہ لیا ‘ حضرت ابوبکر نے بدلہ لیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھ کر تشریف لے جانے لگے ‘ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہوگئے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب وہ شخص تم کو برا کہتا تھا تو آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہو کر اس کی تکذیب کرتا تھا ‘ اور جب تم نے اس سے بدلہ لیا تو شیطان آگیا اور جس جگہ شیطان آجائے تو میں وہاں بیٹھنے والا نہیں ہوں۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٨٩٦) ۔ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے بھی اس حدیث کو اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٨٩٧)
شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو برا کہنے کی ممانعت میں یہ اس آیت کا نزول ہوا۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں یعنی ان سے ثابت ہوتا ہے کہ برائی کرنا، چغلی کرنا ، غیبت کرنا ممنوع ہے ۔
امام مسلم بن حجاج قشیری (٢٦١ ھ) روایت کرتے ہیں کہ  حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دوسرے کو برا کہنے والے جو کچھ کہتے ہیں اس کا وبال ابتداء کرنے والے پر ہوتا ہے جب تک کہ مظلوم تجاوز نہ کرے۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٥٨٧‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٩٤)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث (متوفی ٢٧٥ ھ) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کو چھوڑ دو، اور اس کو برا نہ کہو۔ ( سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٩٩)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے فوت شدہ لوگوں کی نیکیاں بیان کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے باز رہو۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٩٠٠)
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے ‘ صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا تم اپنے بھائی کے اس وصف کا ذکر کرو جس کو وہ ناپسند کرتا ہو ‘ آپ سے عرض کیا گیا یہ بتائیے اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جس کو میں بیان کرتا ہوں، آپ نے فرمایا اگر تمہارئے بھائی میں وہ عیب ہو جس کو تم بیان کرتے ہو تب ہی تو تم اس کی غیبت کرو گے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو تو پھر تم اس پر بہتان باندھو گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٧٤)
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا آپ کے لیے صفیہ سے اتنا اتنا (قد) کافی ہے ! ان کا ارادہ تھا کہ ان کا قد چھوٹا ہے ۔ آپ نے فرمایا تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اس کو سمندر میں ڈال دیا جائے تو اس سے سارا پانی آلودہ ہوجائے گا۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی انسان کی نقل اتاری آپ نے فرمایا میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں کسی کی نقل اتاروں اور مجھے اسکے بدلہ فلاں فلاں چیز مل جائے۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٧٥)
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا ایک قوم کے پاس سے گزر ہوا جس کے پیتل کے ناخن تھے جس سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو کھرچ رہے تھے ‘ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون ہیں ‘ انہوں نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی بےعزتی کرتے تھے یعنی غیبت کرتے تھے)
حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابو طلحہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی اس جگہ بےعزتی کرتا ہے جہاں اس کی عزت نہ کی جارہی ہو اور اس کی توقیر میں کمی کی جارہی ہو تو اللہ اس کو ایسی جگہ بےعزت کرے گا جہاں وہ اپنی نصرت چاہتا ہو ، اور جو شخص کسی مسلمان کی ایسی جگہ نصرت کرے گا جہاں اس کی توقیر میں کمی کی جارہی ہو اور اس کی بےحرمتی کی جارہی ہو تو اللہ اس کی ایسی جگہ مدد فرمائے گا جہاں وہ اپنی مدد پسند کرتا ہو۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٨٤)
حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٧٢)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں  کہ حضرت عقبہ بن عامر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں تو ہمارے متعلق اللہ سے ڈر کیونکہ ہم تیرے ساتھ ہیں ، اگر تو سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٤١٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٣٠٩)
حضرت نعمان بن بشیر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ فاسد ہو تو سارا جسم فاسد ہوجاتا ہے سنو وہ دل ہے۔ (صحیح بخاری : ٥٢)
اہل علم نے قرآن وسنت کی تعلیمات سمجھنے کے بعد چند صورتیں ایسی بتائیں ہیں جہاں غیبت کرنا  مباح ہے ۔ علامہ غلام رسول سعیدی اپنی تفسیر تبیان کرتے ہوئے رمقطراز ہیں :  ‘‘غیبت کرنا مباح ہے اور اس کے چھ اسباب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ مظلوم اپنی داد رسی کے لیے سلطان ‘ قاضی یا اس کے قائم مقام شخص کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کرے کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ کسی برائی کو ختم کرنے اور بدکار کو نیکی کی طرف راجع کرنے کے لیے کسی صاحب اقتدار کے سامنے اس کی غیبت کی جائے کہ فلاں شخص یہ برا کام کرتا ہے اس کو اس برائی سے روکو ! اور اس سے مقصود صرف برائی کا ازالہ ہو اگر یہ مقصد نہ ہو تو غیبت حرام ہے۔ تیسرا سبب ہے استفسار۔ کوئی شخص مفتی سے پوچھے فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ ظلم یا یہ برائی کی ہے کیا یہ جائز ہے ؟ میں اس ظلم سے کیسے نجات پاؤں ؟ یا اپنا حق کس طرح حاصل کروں ‘ اس میں بھی افضل یہ ہے کہ اس شخص کی تعیین کیے بغیر سوال کرے کہ ایسے شخص کا کیا شرعی حکم ہے ؟ تاہم تعیین بھی جائز ہے۔ چوتھاسبب یہ ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا اور ان کو کسی شخص کے ضرر سے بچانا اور اس کی متعدد صورتیں ہیں۔
(ا) مجروح راویوں پر جرح کرنا اور فاسق گواہوں کے عیوب نکالنا یہ اجماع مسلمین سے جائز ہے بلکہ ضرورت کی وجہ سے واجب ہے۔
(ب) کوئی شخص کسی جگہ شادی کرنے کے لیے مشورہ کرے ‘ یا کسی شخص سے شراکت کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص کے پاس امانت رکھنے کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص کے پڑوس میں رہنے کے لیے مشورہ کرے یا کسی شخص سے کسی بھی قسم کا معاملہ کرنے کے لیے مشورہ کرے اور اس شخص میں کوئی عیب ہو تو مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ وہ اس عیب کو ظاہر کردے۔
(ج) جب انسان یہ دیکھے کہ ایک طالب علم کسی بدعتی یا فاسق سے علم حاصل کر رہا ہے اور اس سے علم حاصل کرنے میں اس کے ضرر کا اندیشہ ہے تو وہ اس کی خیرخواہی کے لیے اس بدعتی یا فاسق کی بدعت اور فسق پر اسے متنبہ کرے۔
(د) کسی ایسے شخص کو علاقہ کا حاکم بنایا ہوا ہو جو اس منصب کا اہل نہ ہو ‘ اس کو صحیح طریقہ پر انجام نہ دے سکتا ہو یا غافل ہو یا اور کوئی عیب ہو تو ضروری ہے کہ حاکم اعلی کے سامنے اس کے عیوب بیان کیے جائیں تاکہ اہل اور کارآمد شخص کو حاکم بنایا جاسکے۔
 پانچواں سبب یہ ہے کہ کوئی شخص علی الاعلان فسق وفجور اور بدعات کا ارتکاب کرتا ہو ‘ مثلا شراب نوشی ‘ جوا کھیلنا ‘ لوگوں کے اموال لوٹنا وغیرہ تو ایسے شخص کے ان عیوب کو پس پشت بیان کرنا جائز ہے جن کو وہ علی الاعلان کرتا ہو ‘ اس کے علاوہ اس کے دوسرے عیوب کو بیان کرنا جائز نہیں ہے اور چھٹا سبب یہ ہے تعریف اور تعیین مثلا کوئی شخص اعرج (لنگڑے) اصم (بہرے) اعمی (اندھے) ‘ احول (بھینگے) کے لقب سے مشہور ہو تو اس کی تعریف اور تعیین کے لیے اس کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ کرنا جائز ہے اور اس کی تنقیص کے ارادے سے ان اوصاف کے ساتھ اس کا ذکر جائز نہیں ہے اور اگر اس کی تعریف اور تعیین کسی اور طریقہ سے ہو سکے تو وہ بہتر ہے۔’’ (تبیان القرآن زیر آیت سورہ النساء ۱۴۸)

No comments:

Post a Comment