Monday, March 2, 2020

The Theory of Abrogation Is a Tool of Extremism and Violence Against Non-Muslims and Against The Spirit of The Quran نظریہ نسخ غیر مسلموں کے خلاف انتہا پسندی اور تشدد کا ہتھیار اور قرآن کی روح کے منافی ہے


سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے جو خاتم النبین حضرت محمد ؒﷺ پر نازل ہوا۔گزشتہ تمام الہامی کتابوں میں وقت کے ساتھ تحریف کردی گئی۔ جس کی طرف قرآن میں کئی جگہ اشارہ کیاگیاہے۔ مگر اللہ نے قرآن ہی میں کہہ دیا ہے کہ اس نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر فرض کرلیاہے۔ اس کتا ب کے متعلق اللہ کہتاہے کہ  ”ذلک الکتاب لاریب فیہ“ (یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں)۔ البقرہ: ۲) اس کتاب میں تمام احکام اور اوامر صاف اور واضح الفاظ میں بیان کردئیے گئے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کی باتوں میں کوئی تضاد ہے۔یعنی اس کی آیتیں ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق ہے۔ اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس میں تضاد اور خامیاں ہوتیں۔
”اگرقرآن کسی غیر اللہ کا کلام ہوتا تو انہیں اس میں بہت تضاد ملتا۔“ (النساء: 82)
حضور پاک ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قرآن کو کتاب کی شکل میں مرتب کیاگیا۔ اور تب ہی سے تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ ایک مکمل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے جس کا ایک ایک حرف مستند ہے اور اس میں کسی قسم کی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن دوسری صدی ہجری سے چند علمائے فقہ نے نظریہ ء نسخ کی ایجاد کی جس کی رو سے قرآن کی بہت سی آیتیں منسوخ قراردی گئیں۔ اس نظرئیے کی بنیاد قرآن کی دو آیتوں کو بنایاگیا جس میں اللہ کچھ آیتوں کو منسوخ کرنے اور ان کی جگہ بہتر یا ان جیسی آیتیں لانے یا انسانی ذہن سے بھلانے کی بات کہتاہے۔وہ آیتیں ہیں۔ ”اور جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلادیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر۔“ (البقرہ: 106)
 ”اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت۔“ (النحل: 102)
 ان آیتوں کی بنیاد پر علمائے قرآن اور فقہا نے نظریہ ء نسخ کی پرشکوہ عمارت تعمیر کرلی اور نسخ کے پیچیدہ اصول وضع کرڈالے۔ نظریہ نسخ پر درجنوں کتابیں تصنیف کی گئیں جیسے قتادہ ابن دیامہ السدوسی کی کتاب ”کتاب النسخ االمنسوخ فی کتاب اللہ تعالی“ (117ھ) اور الظہری کی کتاب ”الناسخ والمنسوخ“ (124ھ)
دوسری صدی ہجری سے ہی اسلامی فقہ میں نظریہ نسخ کو استحکام حاصل ہوگیا۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ اسلامی مفسرین اور علمائے فقہ نے نسخ کے اپنے اپنے اسکول قائم کرلئے اور ہر اسکول کی منسوخ شدہ آیتوں کا پنا سیٹ تھا۔ قرآن میں موجود سینکڑوں آیتوں کو ان فقہا ء نے اپنی قیاس کے مطابق منسوخ قراردیا۔ مثال کے طور پر:
 النحاس نے 138 آیتوں کو منسوخ قراردیا
الظہری نے  42  ”  ”    ”
ابن اتیقی نے 231  ”  ”    ”
الفارسی  نے  248   ”  ”    ”
السیوطی نے  20  ”  ”    ”
شاہ ولی اللہ نے ۵  ”  ”    ”
مندرجہ بالا تفصیل سے خود ہی یہ بات ہوجاتی ہے کہ علمائے فقہ نے منسوخ آیتوں کا تعین اپنی ذاتی فہم اور قیاس کی بنا پر کیاتھا اور وہ قرآن کی پنی من مانی تشریح کررہے تھے۔ اس سے قرآن کے تعلق سے مسلمانوں میں تذبذب پیداہوگیاتھا جبکہ اللہ قرآن میں کہتاہے کہ اس کتاب میں شک کی گوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ علمائے نے نظریہ نسخ کو علم تفسیر کے لئے لازمی قراردیا بلکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ گیارہوں صدی ہجری کے ایک عالم نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو بھی مسلمان نظریہ ء نسخ میں یقین نہیں رکھتا وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ اور یہ سب قرآن کی ان دو آیتوں کی بنیاد پر کیاگیا جن میں اللہ یہ کہتاہے کہ وہ اپنی مصلحت کے تحت اگر چاہتاہے تو کسی آیت کو منسوخ کردیتاہے اور اس کی جگہ دوسری آیت لے آتاہے اور وہ کچھ آیتوں کو رسول اللہ ﷺ کے ذہن سے بھلا بھی دیتاہے۔
ان آیتوں سے صرف یہ ظاہر ہوتاہے کہ اللہ نے نزول وحی کے دوران حضور پاک ﷺ کی حیات ہی میں کچھ آیتیں منسوخ کیں یا قرآن سے ہٹالیں یا حضور پاک ﷺ اور حفاظ کے ذہن سے بھلادیں اور انکی جگہ دوسری آیتٰں نازل کیں۔ چونکہ وحی کے نزول کا سلسلہ حضور پاک ﷺ کی زندگی تک ہی رہا اس لئے آیتوں کی منسوخی اور تبدیلی حضور پاک ﷺ کے دور حیات ہی میں ہوگئی۔ اس لئے قرآن میں جو آیتیں موجود ہیں انکی معنوی اور تاریخی اہمیت ہے۔ اور انہیں ان کی شان نزول کے نتاظر ہی میٰں سمجھنا اور سمجھانا چاہئے نہ کہ انہیں یک قلم منسوخ قراردیاجائے۔ قرآن کی ایک آیت تو کجا ایک نقطے کو منسوخ قراردینے کا حق اللہ نے کسی انسان کو نہیں دیا۔
 دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آیتوں کی منسوخی یا تبدیلی سے متعلق کوئی حکم نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں۔ اگر قرآن فہمی اور فقہ کی تعمیر میں نظریہ نسخ اتنا اہم ہوتا یا قرآن کی آیتوں میٰں نعوذ باللہ تضاد ہوتا تو حضورپاک ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں ان آیتوں کو منسوخ کردیاہوتا۔ جبکہ قرآن کی آیتوں میں جو تضاد ان علماء و فقہا کو نظر آتاہے وہ خود ان کی نظروں کا قصور ہے اور ان کی اپنی فہم کی بنیاد پر ہے نہ کہ قرآن کی آیتوں مینں۔نظریہ ء نسخ کی حامی حضرات حضرت علی سے متعلق اس واقعہ کو دلیل بناکر پیش کرتے ہیں جس کے مطابق ایک واعظ عوام میں قرآن کی غلط تشریح و تفسیر کررہے تھے اس لئے انہوں نے اس واعظ سے کہاتھا کہ وہ ناسخ او رمنسوخ کے علم کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کریں۔ اس ایک واقعے پر چاہے وہ معتبر ہو یا غیر معتبر نظریہ نسخ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ واعظ قرآن کی کس طرح سے تفسیر کررہے تھے اور خود انکی علمی لیاقت کیا تھی۔ حضرت عثمان اور حضرت علی کا دور ملت اسلامیہ میں فکری اور ملی انتشار کا دور تھا۔ اس زمانے میں بیشمار حدیثیں گھڑی گئیں اور غیر معتبر روایات کی اشاعت کی گئی۔ اس لئے اس دور کا کوئی ایک واقعہ نظریہ نسخ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
اس نظریہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے یہ اسلام میں انتہا پسندی اور تکفیری رویہ کو فروغ دینے کا ایک موثر ہتھیار بن گیا یعنی اس نظرئیے کی مدد سے کفار و مشرکین کے خلاف قتل و غارت گری  کو قرآن کی رو سے درست ثابت کرنے کا جواز ہاتھ آگیا۔ علمائے فقہ نے قرآن کی ان تمام آیات کو منسوخ قراردیا جن میں غیر مسلموں کے ساتھ عفود درگذر، امن، حسن سلوک، عدل ، صلح اور افہام و تفہیم  کی ہدایت دی گئی تھی اور سورہ التوبہ اور دیگر ”آیات سیف“ کو ان آیات کا ناسخ قراردیاگیا جن میں غیر مسلموں سے حسن سلوک کی ہدایت دی گئی تھی۔ النحاس کا تو یہ عقیدہ تھا کہ سورۃ التوبتہ کی آیت نمبر 29جس میں غیر مسلموں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے  غیر مسلموں کے ساتھ امن و آشتی اور افہام و تفہیم کی ہدایت دینے والی تمام آیتوں کو منسوخ کرتی ہے۔وہ سورۃ التوبتہ کی وہ آیت یہ ہے:
”انہیں قتل کرو جو اللہ میں اور روز قیامت میں یقین نہیں رکھتے اور جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قراردیاہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب میں سے جو لوگ دین حق کو قبول نہیں کرتے حتی کہ وہ مغلوب ہوکر جزیہ دیں۔“
اس طرح قرآن کے پیغام کو ہی ان علماء نے الٹ دیا۔ وہ آیات جو رسول پاک ﷺ کی زندگی میں کفار و مشرکین سے جنگ اور تنازع کے دور میں ایک خاص تناظر میں اتری تھیں اور جن میں مسلمانوں کو اپنی بقا کے لئے کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی تھی انہیں تو آفاقی اور ہردور میٰں قابل عمل قراردیاگیا اور جو آیتیں مسلمانوں کو ہردور میں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک ، عدل، صلح، اور مفاہمت کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتی ہیں ان کو مسوخ قراردیا۔ علامہ اقبا ل نے انہی علماء کے متعلق کہاتھا
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
نظریہ نسخ  انتہاپسند فقہا کے ہاتھ میں قرآن کے آفاقی پیغام انسانیت کو بدلنے اور منسوخ کرنے کا ایک کارگر ہتھیار بن گیا۔
ایسانہیں ہے کہ تمام علمائے متقدمین نظریہ نسخ کے قائل تھے بلکہ ایک بڑی تعداد نظریہ ء نسخ میں یقین نہیں رکھتی تھی۔ لیکن نظریہ نسخ کے حامی چند مشہور علمائے متقدمین و علمائے متاخرین کا نام لیکر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس پر علماء کا اجماع اور اتفاق ہے۔ امام شافعی نظریہ نسخ میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں وہ قرآن میں موجود ہی نہیں ہیں۔ اور اس کے لئے وہ سورہ النحل کی آیت ۱۰۱ کو بنیاد بناتے ہیں۔ ابو مسلم الاصفہانی بھی نظریہ نسخ میں یقین نہیں رکھتے تھے۔
بہرحال انیسویں صدی عیسوی سے اس نظریہ کا زور کم پڑنے لگا ۔ اس نظریہ میں مدرسے سے فارغ ہونے والے علماء راسخ عقیدہ رکھتے تھے مگر جدید علماء نے آزادانہ طور پر اور اجتہادی نقطہ نظر سے جب اس نظریہ پر غور کیا تو انہیں قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملی اس لئے انہوں نے اس نظریہ کو مسترد کردیا۔ سید محمد قطب، علامہ محمد اسد، محمد عبدہ، سرسید احمد خاں، محمد رشید رضا، جمال الدین افغانی، البانی، ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ نے نظریہ نسخ کو مسترد کردیا۔ ان جدید علماء کی دلیل یہ تھی کہ قرآن کہیں بھی یہ نہیں کہتا کہ فلاں آیت فلاں آیت سے منسوخ ہے۔ اور نہ کوئی مستند حدیث کسی آیت کو منسوخ کرتی ہے۔ ہاں، کچھ حدیثوں کی منسوخی کا ذکر کچھ تابعین کی روایتوں میں ملتاہے۔ مگر علمائے فقہ منسوخ شدہ حدیثوں کی بات نہیں کرتے اور نہ ایسی حدیثوں کی فہرست تیار کرتے ہیں جو حضور پاک ﷺ نے خود منسوخ فرمائی ہیں۔ کیونکہ ان حدیثوں کی منسوخی سے انکے انتہا پسندانہ نظریات کی ہوا نکل جائیگی۔ ارتداد کی سزا اور رجم کے احکام قرآن سے نہیں حدیثوں سے ثابت کئے جاتے ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جو علماء نظریہ نسخ میں یقین رکھتے ہیں وہ دوسری طرف قرآن کے غیر مخلوق ہونے کے نظرئیے میں بھی یقین کرتے ہیں۔ یہ خود ان کے فکر کا تضاد ہے۔
آخر میں نظریہ ء نسخ کی مخالفت میں ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان نقل کیاجاتاہے:
”یہ دعوی کرنا کہ قرآن کی چند آیتیں منسوخ ہیں۔ قرآن کی حقانیت پر شبہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ نہ خدا نے اور نہ ہی رسول ﷺ نے واضح الفاظ میں انسانوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ فلاں فلاں آیت منسوخ ہے۔ قرآن میں ایسی کئی آیتیں ہیں جو قرآن کی مختلف صفات بتاتی ہیں (ہادی، حکیم، شفا وغیرہ) جو مجموعی طور پر قرآن کی معنویت کی تصدیق کرتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایک مستند حدیث ایسی نہیں ہے جس میں قرآن کی آیتوں کی منسوخی کا حوالہ ہو۔“

No comments:

Post a Comment