کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
8 نومبر 2019
اپنے ارد گرد یہ دیکھنا بہت مایوس کن ہوتا ہے کہ کچھ والدین خوشی کا اظہار کرتے ہیں جب ان کے گھر نو زائد اولاد لڑکا ہو اور لڑکی دیکھتے ہی اپنی نا خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کہ یہ طرز عمل قبل اسلام کا تھا لیکن بد قسمتی سے آج تک ہمارے کثیر الثقافتی معاشرے میں رائج ہے۔ آمداسلام سے قبل اہل عرب بیٹیوں کو باعث ذلت و رسوائی سمجھتے تھے۔ شیر خوار بیٹیوں کو قتل کرنے کے لیے انہیں زندہ درگور کرنے کا طریقہ بہت عام تھا۔ آمد اسلام سے قبل جب بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اس دور کے والدوں کی حالت کا تذکرہ کرکے قرآن اس طرز عمل کی مذمت کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: ‘‘اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھا تا ہے، (۱۶:۵۸) لوگوں سے چھپا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب، کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں’’ (۱۶:۵۹)
قرآن نے واضح طور پر اسے بیان کردیا تھا کہ ان اسباب کی بنیاد پر یا مفلسی وناداری کے خوف سے کسی بچے کو قتل کرنے کا عمل بعثت اسلام سے قبل کے عربوں کے برے عادات واطوار میں سا تھا۔ ان قرآنی آیتوں کے نزول نے شیر خوار بچیوں کی ہلاکت کے عمل کو تقریبا ختم کردیا تھا۔
مگر اس برے عمل کو اب تک انجام دیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ اس کے لیے پوری دنیا میں سخت قوانین بنائے جا چکے ہیں۔ اس عمل کو پوری طرح جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں بتائیں کہ اس عمل کی بنیاد شیطانی محرک پر ہے جسے جاہلی دور سے انجام دیا جا رہا ہے۔
اور قرآن کہتا ہے: ‘‘اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے’’ (7:151)۔ یہ آیت والدین کو مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنے کے خلاف متنبہ کرتی ہے، اس بات کا حکم دیتے ہوئے کہ انہیں اپنے اہل وعیال کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خدا کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اولاد کو قتل کے خلاف اسی طرح کی وعیدیں قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی دی گئیں ہیں ، مثال کے طور پر قرآن کی آیات (6:140) اور (17 :31) کا مطالعہ کریں۔
قرآن کی آیت (16:59)میں دردناک عذاب اور سخت انتباہ ہے ان کے لئے جو بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسلام بیٹیوں کو باعثِ رحمت مانتا ہے اور ہمیں حتی کہ بیٹوں سے بھی زیادہ بیٹیوں کے ساتھ رحم و کرم کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔ درج ذیل کچھ صحیح احادیث ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ بیٹیوں کے ساتھ ہمیں کیسا سلوک کرنا چاہیے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص جس کی سرپرستی میں دو لڑکیاں ہوں یہاں تک کہ وہ بلوغت کی منزل کو پہنچ جائیں تو ایسا شخص بروز قیامت اس حالت میں آئے گا کہ میں اور وہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں گے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر دکھایا کہ اتنے پاس ہوں گے۔ (صحیح مسلم)
مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی تھیں پھر اس نے کسی چیز کا سوال کیا یعنی کچھ مانگا۔ اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ بھی نہیں تھا میں نے وہ اسے دے دیا۔ اس عورت نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور اپنی دونوں بیٹیوں میں بانٹ دیا اور خود بغیر کھائے ہی رہ گئی۔ اس کے جانے کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم گھر پہنچے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جس شخص پر اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کے ذریعے رحمتوں سے نوازا ہو اور وہ ان کے ساتھ شفقت مندانہ سلوک کرے تو وہ بچیاں اس کے لئے آگ سے نجات کا باعث بن جائیں گی۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک بدو نے حضور اکرم صلی علیہ و سلم سے کہا کہ آپ لوگ بچوں کو شفقت سے بوسہ دیتے ہیں لیکن ہم تو ایسا نہیں کرتے اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا میں کیا کروں جب اللہ نے تمہارے دلوں سے شفقت کو نکال دیا ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،"ایک غریب عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ میرے پاس آئی میں نے اسے تین کھجور دیئے۔ اس نے ایک ایک اپنی بیٹیوں کو دے دیا اور ایک اپنے منہ میں رکھنے والی ہی تھی کہ اس کی بیٹیوں نے اس سے یہ بھی مانگ لیا۔ اس نے اس کے بھی دو ٹکڑے کئے ان میں بانٹ دیا۔ جب میں نے حضور اکرم صلی علیہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے اس پر جنت واجب کر دیا ہے اور اس کے ذریعے اسے جہنم سے نجات عطاء فرمایا۔ (مسند احمد اور صحیح مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "یقیناً اللہ اس شخص کو ضرور جنت عطا فرمائے گا جو یتیموں میں کھانا پانی تقسیم کرتا ہو سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا سنگین گناہ نہ کیا ہو جو ناقابل معافی اور اس شخص پر بھی جنت واجب کر دے گا جو تین بیٹیوں کی یا اتنی ہی بہنوں کی اچھی دیکھ بھال کرے اور انہیں اچھی تعلیم اور اچھے اخلاق و کردار سے مزین کرے اس وقت تک جب تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں۔ (شرح السنہ)
نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا "کیا میں تمہیں ایک سب سے بڑے صدقے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ یہ تمہارا تمہاری بیٹیوں کا خیال رکھنا ہے جو تمہارے پاس بھیجی گئیں ہیں۔ (مسند احمد اور ابن ماجہ)
مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک شخص کے لئے اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھانا اس کے ایک صاع دینے سے بہتر ہے۔ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک والد اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔ (ترمذی اور بیہقی)
اور یہ بھی فرمایا کہ ایک والد کی جانب سے اس کے بچوں کے لئے اس سے بڑا کوئی تحفہ نہیں کہ وہ انہیں اچھے اخلاق سکھائے ۔(ترمذی اور حاکم)
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا "اپنے بچوں کی عزت کرو اور انہیں اچھے اخلاق سکھاؤ"۔ (ابن ماجہ)
آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے بچوں کو یکساں طور پر دیکھو اگر مجھے کسی کو ترجیح دینی ہوتی تو میں لڑکیوں (بیٹیوں) کو ترجیح دیتا۔ (طبرانی)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جس کے پاس بیٹیاں ہو اور وہ اس کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی توہین کرنے سے پرہیز کرتا ہو اور اپنے بیٹوں کو ان پر ترجیح نہ دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ (ابو داؤد)
مندرجہ بالا اقتباسات میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ آخر کس طرح اسلام شیر خوار بیٹیوں کو قتل کرنے سے باز رکھتا ہے بلکہ بیٹوں کے مقابلے بیٹیوں کے ساتھ زیادہ عمدہ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے ۔ مزید یہ بھی کہ اسلام نہ صرف بچی کشی کو بند کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ یہ والدین کو بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتا ہے۔مذکورہ احادیث میں بیٹیوں کو جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ ہم اتنی خوبصورت تعلیم کا درس عام کریں بالخصوص ان لوگوں تک تو ضرور جو نوزائیدہ لڑکی پر ناراضگی اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment