Wednesday, March 4, 2020

Why Indian Muslims are Not ‘Jihadists’? Beauties of India Constitution ہندوستانی آئین کی خوبصورتیاں : آخر ہندوستان کا مسلمان کیوں غیر ملکی ‘‘جہادی’’ فکری بیماریوں سے محفوظ ہے ؟


غلام غوث صدیقی ، نیوایج اسلام
ہم مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جس نے اپنے شب وروز کو صرف اس بات پر وقف کر دیا ہے کہ وہ وطن عزیز ہندوستان کے تحفظ پر غوروفکر کرتے رہیں گے ۔سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے سامنےوہ کونسے خطرات ہیں جو ملک کی سالمیت اور اس کی روحانی اقدار وروایات پر حملہ آور ہو سکتے ہیں کہ جن کی فکر نہ صرف مسلمانوں کے اس غور وفکر کرنے والے طبقے کو ہے بلکہ ان کے علاوہ غیر مسلموں کا ایک طبقہ بھی اسی فکر کے سایہ تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔
پچھلے ایک دہائی سے پوری انسانی دنیا بلکہ دین اسلام کی روحانیت پر حملہ کرنے والوں کی صفوں میں جو فرقہ سب سے نمایاں کردار انجام دے رہا ہے وہ ‘‘جہادیوں کا فرقہ’’ ہے جو اصلا نہ صرف اپنے دین اسلام کے باغی بن کر ابھرے بلکہ اپنے اپنے ملک کی سالمیت کے سینے کو بھی بے رحمی سے چھلنی چھلنی کرنے والے مجرمین بن گئے ۔نہ وہ دین ومذہب کے پسندیدہ متبعین کہلائے جا رہے ہیں اور نہ ہی اپنے اپنے ملک کے محافظوں میں شمار ہو رہے ہیں ۔تقریبا پوری انسانی دنیا نے ‘‘جہادیوں ’’ کے اس فرقے کے خونی ہولی اور آگ کا کھیل دیکھا اور پھر انہیں یہ فکر ستانے لگی کہ آخر وہ کس طرح اس خطرناک آگ کے شرارے سے انسانی دنیا کو محفوظ کریں ۔
انسانی دنیا سے ہی ایک طبقہ بڑے دلیرانہ انداز سے اٹھا اور غور وفکر کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہوا اس نتیجہ پر پہنچا کہ ‘‘جہادی فرقوں’’ کا علاج تلاش کیا جائے اور جب اسے معلوم ہوا کہ ان کا علاج وہیں موجود ہے جہاں سے انہیں مرض لاحق ہوا ہے ۔‘‘جہادیوں’’ کا یہ مرض در اصل قرآن وسنت کی صحیح معرفت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے وجود میں آیا ، لہذا اس مرض کا علاج تبھی ممکن ہے جب ہم ان کا علاج قرآن وسنت کی صحیح معرفت سے کریں ۔یہاں ایک فکر یہ آئی کہ ابو مصعب زرقاوی ، اسامہ بن لادن اور بغدادی کو بم سے اڑایا جا سکتا ہے لیکن ان کی عروج پاتی فکر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔اس فکر نے بھی یہی نتیجہ دیا کہ قرآن وسنت کی جو صحیح معرفت ہے اسی کو عوام میں مقبول کرکے ‘‘جہادی’’ فکر کا خاتمہ ممکن ہے ۔
انسانی دنیا کایہ طبقہ کچھ حصوں میں بٹ گیا ، ایک حصہ بجائے قرآن وسنت کو صحیح سے سمجھنے کے یہ الزام دے بیٹھا کہ ‘‘جہادی فکر’’کو قرآن وسنت سے ہی تقویت ملتی ہے اور یہ نہ سمجھ سکا کہ در اصل ‘‘جہادیوں’’ کو اگر تقویت ملتی ہے تو ان کا اپنا غیر انسانی ، غیر اسلامی بلکہ شیطانی عمل ہے جو انہیں قرآن وسنت کی صحیح معرفت سے دور رکھے ہوئے ہے ۔ایک طبقہ شکوک وشبہات اور یقین وایمانیات کے مابین پریشان کھڑا ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر کونسے مسلمان سچے ہیں ، ‘‘جہادی مسلمان’’ سچے ہیں یا وہ مسلمان جو ‘‘جہادیوں ’’کے مشن میں شامل نہیں ہیں۔اور پھر اس طرح یہ دوسرا طبقہ کوئی بھی غیر مفید بات بولنے، سوچنے اور لکھنے پر کوشاں ہے ۔اسی طرح اسی انسانی دنیا سے ایک طبقہ ایسا بھی اٹھا جو ‘‘جہادیوں’’ کے ناپاک عمل کو کوسنے اور تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے وہ صرف اسلام ، مسلمان اور ان کے برگزیدہ شخصیات پر زہر آلود اور دل برداشتہ جملوں کا استعمال کرنے سے باز نہیں رہتا ۔
اسی انسانی دنیا میں مسلمان بھی رہتے ہیں اور ان میں سے ایک طبقہ ایسا بھی نکلا جو قرآن وسنت کی صحیح معرفت حاصل کرکے ‘‘جہادیوں’’ کی فکری بیماری کا علاج بھی کر رہی ہے اور الحمد للہ اس کا اثر بھی پوری دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں کا غالب حصہ اس فکری بیماری سے محفوظ ومامون ہے ۔فکری بیماری سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے میں ایک دوسرا کلیدی کردار جس نے ادا کیا ہے وہ ہے ان کا اپنااپنا ملک اور اپنا اپنا نظام ۔جن جن ملکوں نے مسلمانوں کو ان کے دین ، جان ، عزت وآبرو کے تحفظ کی صدق دل سے ضمانت لی اور اعلانیہ ذمہ داری لی ، وہاں مسلمانوں کا طبقہ ‘‘جہادی ’’ فکری بیماری سے زیادہ محفوظ ہے۔
بات ہم پوری دنیا کی کر رہے تھے لیکن اب اگر خاص ہندوستان کے سیاق میں گفتگوکریں اور غور وفکر کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان دوسری دنیا کے مقابلے ‘‘جہادی’’ فکری بیماری سے زیادہ محفوظ ہے تو اس کی سب سے اصل وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے بلکہ اوروں کو بھی ایسا ہی ضرور لگتا ہوگا کہ اگر ہندوستان کا مسلمان ‘‘جہادیوں’’ کے بھرتی مشن پروگرام کے مکرو فریب سے محفوظ ہے تو اس کی اصل وجہ ہندوستان کا آئین ہے ۔ ہندوستان کی آئین ہی کی وہ خوبصورتی ہے جو دنیا کے دیگر سیکولر ممالک کے مقابلے مسلمانوں کو ان کے اپنے ہندوستان میں زیادہ حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے ۔یہی وہ خوبصورتی ہے جو دوسرے ممالک کے مقابلے مسلمانوں کو ‘‘جہادی’’ نظریات کا شکار بننے سے روکنے میں زیادہ معاون ثابت ہو رہی ہے ۔ہندوستان کا ہی وہ خوبصورت آئین ہے جو مسلمانوں کو ان کے اپنے دین ، جال ، مال ، عزت وآبر و کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے اور اسی طرح مسلمانوں کو دیگر مذہبی علامات وشعائر کی مکمل آزادی دیتا ہے ۔
آئین ہند کی خوبصورتی اس میں مذکور بنیادی حقوق ، ریاستی پالیسی کے رہنما اصول اور بنیادی فرائض سے اجاگر ہوتی ہے جو کہ آئین ہند کے دفعات کہلائے جاتے ہیں۔اسی آئین نے ریاست کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ شہریوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھائیں ۔ اس آئین کی خوبصورتی کا سب سے اہم اور قابل وضاحت راز تو اس کے اس خوبصورت لائن میں ہے جو ریاست کے تمام حکمرانوں اور بہترین نیتاووں اور پولیٹیشینز کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کے حقوق مساوات کا خیال رکھیں بلکہ ان کے لیے آواز اٹھانا بھی در اصل نہ صرف ہندوستان کے آئین بلکہ خود سرزمین ہندوستان کے حق میں آواز اٹھانے کے مترادف ہے۔
ہندوستانی آئین کی ایک خوبصورتی تو تب نظر آتی ہے جب یہ واضح طور پر یہ ضمانت دیتی ہے کہ آئین ہند میں مذکور حقوق کی اصل جان تو وہ دفعات ہیں جو نسل ، ذات، جائے پیدائش ، ذات ، عقیدہ ، یا جنسی امتیاز سے قطع نظر ، نہ صرف ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی ضامن ہیں بلکہ مخصوص پابندیوں کی تابع عدالتوں کی طرف سے حفاظتی انتظامات کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں ۔ ہندوستان کی آئین کے حصہ چہارم کا علم رکھنے والا جانتا ہے کہ اس حصہ میں مذکور اصول وضوابط عدالتوں کی طرف سے اگرچہ قابل نفاذ نہیں ہیں، لیکن جن اصولوں پر انہیں وضع کیا گیا ہے وہ ہندوستان کی حکومت اور حکمران کے لیے بنیادی ہدایات کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے تعلق سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ وہ ریاستی فلاح وبہبود اور ترقی وخوشحالی کی خاطر حقوق مساوات کا بھی خیال رکھیں گے ۔یہ آئین ہند کی وہ چند خوبصورت جھلکیاں ہیں جو اس ملک کو ، اس کے اچھے حکمرانوں کو ، اس کے سچے محافظوں کو اور اس کے سچے اور اچھے شہریوں کو خوبصورت بناتے ہیں۔
آئین ہند کی یہی وہ اصل خوبصورتیاں ہیں جو یہاں دوسری سب سے بڑی آباد بستیوں کے رہنے والے مسلمانوں کو اس ملک کی آب وہوا میں زندگی گزارنے پر مجبور کر رہی ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ یہ وہ محبتیں ہیں جو مسلمانوں کو اسی وطن کی مٹی میں مر کر دفن ہو جانے پر ابھارتی ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے دین ، عقیدہ ، مذہب اور جان کی فکر کئے بنا اپنے اپنے گھریلو زندگی میں مصروف عمل ہیں ، وہ صرف نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ عبادات کے لیے تھوڑا وقت نکالتے ہیں ، بلکہ اکثر کا حال یہ ہے کہ ان بنیادی فرائض کی ادائیگی کے لیے بھی ان کے پاس وقت میسر نہ ہونے کا بہانہ ہے ، ہاں عیدین وجمعہ اور دیگر تیہواروں کی خوشیوں میں سبھی شامل رہتے ہیں، اور پھر اسی طرح سال بھر کا معاملہ رہتا ہے ۔یہی وہ خوبصورت لمحات ہیں ، یہی وہ خوبصورت اسباب ووجوہات ہیں جو مسلمانوں کو ‘‘جہادی ’’ فکروں کی بیماریوں سے بچائے ہوئے ہیں ۔مجھے فکر ہے کہ کہیں آئین ہند کی ان خوبصورتیوں پرحملہ نہ کر دیا جائے اور پھر اسی ملک میں پیدا ہونے والے افراد اسی ملک کے غدار دشمن نہ بن جائیں ۔لیکن مجھے ہندوستان میں رہنے بسنے والے ان تمام افراد پر یقین ہے جو بے شمار عمدہ فکری باتیں کرنے میں لگے ہیں اور وطن عزیز کی بہتری ، ترقی اور خوشحالی کی خاطر ہر طرح کی قربانیوں میں شامل ہونے اور بالخصوص ہندوستان کی تمام شہریوں کے ساتھ عدل وانصاف اور سلوک مساوات قائم رکھنے کا دلیرانہ جذبہ رکھتے ہیں ۔
بحیثیت طالب علم مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ہمیں لوگوں کو سیاسی پارٹی بندیوں سے نہیں پہچاننا چاہیے بلکہ ان کے ایماندارانہ سلوک وبرتاو او ران کے عمدہ اخلاق کی بنیاد پر ہی انہیں تاریخ کے صفحات میں یاد رکھنے کے لیے محفوظ کرلینا چاہیے ۔کانگریس ہو یا بی جے پی یا کوئی بھی پارٹی جو بھی اس وطن عزیز کی بہتری کی خاطر اپنا حکمرانہ رول ادا کریں اور مخلصانہ ،برادرانہ اور محبانہ برتاو کریں وہ سب ہمارے خیر خواہ ہیں ۔یہ تعلیم ہمیں قرآن سے ملتی ہے کہ انسان اپنے تقوی ، اخلاص اور نیک نیتی سے پہچانا جائے نہ کہ اپنے مال ، طاقت اورحکومت سے جانا پہچانا جائے ۔
اخیر میں یہی نتیجہ نکالنا چاہوں گا کہ آئین ہند کی یہی وہ مختصر مذکورہ بالا خوبصورتیاں ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں سے قلبی رشتہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں اور اسی خوبصورت سرزمین کے بسنے والے وہ تمام مسلم اور غیر مسلم شہری کے آپسی خوشگوار تعلقات ہیں اور یہی سب وہ اسباب ہیں جو یہاں کے مسلمانوں کو غیر ملکی ‘‘جہادی’’ فکری بیماریوں سے محفوظ بنائے ہوئے ہیں ۔
میں اپنے مسلم بھائیوں سے بھی ایک مودبانہ عرض کروں گا کہ ایک گھر میں ، ایک ملک میں رہنے کے درمیان کبھی کبھی تلخیاں آجاتی ہیں لیکن ہر حال میں ہمیں صبر وآزمائش کا امتحان پاس ضرور کرنا چاہیے ۔کبھی کبھی ملک میں کوئی ایسا موڑ ضرور آجاتا ہے جہاں ہمیں صبر وآزمائش کا سخت سامنا ہوتا ہے ۔بات خواہ ملک کی موجودہ صورتحال کا ہو یا مستقبل میں ہونے والے کسی بھی ممکنہ واقعات کا قبل از وقوع احساس کرنے کی ہو ، بہر حال یعنی نتیجہ کچھ بھی ہو ، کسی بھی حالت میں صبر کا دامن نہ چھوڑ یں اورمایوسی اور خوف ودہشت کا شکار نہ بنیں ۔اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہیں ، علاوہ ازیں اپنے کاموں میں مصروف رہیں ، اورتھوڑا اپنے ملک کی سالمیت اور خوشحالی کے لیے بھی دعاکرتے رہیں ۔یہ تو یاد رکھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا : لا تیئس من رحمۃ اللہ یعنی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس وپریشان نہ ہو ۔دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا : ان اللہ مع الصابرین یعنی اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے یعنی اگر ہم اس نیک ارادے سے کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اگر ہم پر امید ہو کر اورپورے ایمان ویقین کے ساتھ یہ نیت کر لیں کہ ہندوستان میں ہونے والے کسی بھی واقعہ پر اگر ہم صبر کریں تو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہوگا ، تو بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اس صبر کے ساتھ یہ بھی یاد کریں کہ اگرچہ بعض صورت حال میں ہمیں آئین ہند اپنے حقوق کے لیے آوازیں اٹھانے کی اجازت دیتا ہے لیکن ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہمیں آئین ہند کے مطابق ہی آواز اٹھانا چاہیے یعنی ہمیں کوئی بھی ایسا راستہ یا ایسی کوئی فکر نہیں اپنانی چاہیے جو ہمیں مایوسی کی طرف لے جائے یا جوہم سے ہمارے صبر واستقامت چھین لے  اور پھر ہمیں ملک کا باغی بنا دیا جائے ۔لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں اور ان شاء اللہ اسی پر عمل کرتے رہیں گے ۔  
اللہ تعالی اس ملک کی سالمیت کو قائم رکھے اور اس میں بسنے والے لوگوں کو اچھی اورسچی خوشحالی عطا فرمائے !

No comments:

Post a Comment