Sunday, March 1, 2020

Reconstruction of Madarsa Curriculum and Islamic Jurisprudence مدرسوں کے نصاب کی تشکیل نو اور اسلامی فقہ کی تشکیل جدید کی وکالت اب مدرسوں کے تعلیم یافتہ علماء بھی کررہے ہیں


سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
مدارس اسلامی تعلیم کے مراکز ہیں۔ ان مدرسوں سے ہی دین اسلام کی اشاعت اور اس کے فروغ کے کام ہوتے ہیں۔ مدارس اسلام کے ابتدائی ادوار میں دینی و سائنسی علم کے مراکز تھے۔ ابتدائی دور میں اسلامی ممالک میں مدارس ہی تمام علوم کے مراکز تھے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی ان مدارس میں پڑھائے جاتے تھے اور یہیں سے تعلیم حاصل کرکے عالم اسلام کے مایہ ناز سائنسداں، عالم دین، اور دیگر دنیاوی علوم کے ماہرین پیداہوئے۔ مگرجب دنیا میں مغربی قوموں کا اثر و رسوخ بڑھا اور مغربی ممالک میں اسلامی ممالک اور مشرقی ممالک کا قبضہ ہوا تو انہوں نے مغربی طرز تعلیم کو فروغ دیا جس میں مذہبی علوم کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ رفتہ رفتہ تعلیمی نظام دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ مغربی نظام تعلیم میں دینی علوم کی کوئی جگہ نہیں رہی تو اسلامی نظام تعلیم سے بھی مسلمانوں نے سائنسی علوم کو ہٹادیا کیونکہ سائنسی علوم کو دنیاوی علوم قراردے دیاگیا جبکہ قرآن نے علوم میں کوئی تفریق نہیں کی۔
جب سائنس، معاشیات، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی کو دنیاوی علوم قراردیکر مدرسوں سے نکال دیاگیاتو پھر مدرسوں میں پڑھانے کے لئے بہت کم موضوعات رہ گئے۔لہذا، ایسے موضوعات نصاب میں شامل کئے گئے جن کا مسلمانوں کی عملی زندگی سے بہت کم یا پھر کوئی تعلق نہیں ٰ تھا۔ علمائے کرام کی رایوں اور ان کے deductions کو دین کا حصہ بنادیاگیا۔ اور اس طرح اسلامی فقہ کی تشکیل ہوتی چلی گئی۔ اور ایک دور ایسا آیا کہ قرآن اور حدیث دور جا پڑے اور علماء کی رائے اور ان کے اپنے نظریات کو اسلامی شریعت سمجھ لیاگیا۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے والے فضلا ء اپنے آپ کو وسیع معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ وہ مدرسوں اور مسجدوں تک محدود ہوگئے۔ ان کی صلاحیتیں ضائع ہونے لگیں۔ ان کے خیالات اور نظریات بھی باقی دنیا کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد معاشی اور فکری پسماندگی میں مبتلا ہوگئی۔
جدید دور میں کچھ ایسے علماء پیداہوئے جنہوں نے اس جمود کو توڑنے کی بات کی اور اس پسماندگی کی وجہ مدرسوں کے تعلیمی نظام اور نصاب کو ٹھہرایا۔ وہ دینی تعلیم کے ساتھ سائنسی علوم اوردیگر فنون کی شمولیت کی وکالت کرنے لگے۔ اور مدرسوں کے نصاب اور اسلامی فقہ کی تشکیل جدید پر زور دینے لگے۔ حالانکہ ایسا طبقہ بہت چھوٹا ہے مگر اب ایسے علماء کی تعددا میں اضافہ ہورہاہے اور وہ اب زیادہ مکھر ہورہے ہیں۔ حال میں یہ مثبت منظر نامہ بھی سامنے آیاہے کہ خود مدرسوں سے نکلنے والے علماء اب فقہ اور مدرسہ کے نصاب میں تبدیلی کی پرزور وکالت کررہے ہیں۔ان میں دونام جو ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ ہیں وارث مظہری اور مولانا سلمان حسنی ندوی کے۔ دونوں حضرات عالم دین ہیں اور قرآن وحدیث اور فقہ سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔ مولاانا سلمان حسنی ندوی آج کل اپنے اجتہادی افکار کے لئے روایت پرست علماء کے نشانے پر ہیں اور ان پر لعن طعن بھی کیاجارہا ہے۔ وارث مظہری علمی گفتگو کرتے ہیں اور شعلہ بیانی سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اپنی باتیں دلائل کی مدد سے پیش کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے دور درشن پر گفتگو کرتے ہوئے اسلامی فقہ اور مدرسہ کے نصاب کی تشکیل جدید پر جو کچھ کہا اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:
”صورت حال یہ ہے کہ مدارس توکھلے ہندوستان میں۔ مدارس ہرگلی ہرگاؤں میں کھلے۔ پورا جال بن گیا۔ انکے مقابلے میں ماڈرن تعلیمی ادارے بالکل قائم نہیں ہو پائے ، سو میں سے پانچ کا بھی ریشیو نہیں ملیگا۔ تو جو intellectual backwardness آیاہے اس کا اثر بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے اندر جو جذباتیت پیداہوئی اس جذباتیت کی وجہ بھی یہی ہے۔ ہمارے یہاں دینی تعلیم کا جو نظام ہے اس میں یونیورسل تعلیم کو بھی شامل کرنا چاہئے تھا۔ طلبہ کو کم از کم دسویں تک ایک جیسی تعلیم دینی چاہئے تھی وہ چاہے جس مدرسے سے آیاہوتاکہ وہ آج کے دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھ سکیں۔مثال کے طور پر، تاج محل کا جو معمار تھا وہ احمد معمارتھا، اور شاہ جہاں کا وزیر سعداللہ اور مجدد الف ثانی یہ تینوں ایک ہی اسکول کے تعلیم یافتہ تھے۔ (اور بعد میں مختلف شعبوں میں نام کمایا)مگر اب جو یہ ہمار ا تعلیمی نظام ہے وہ ایسی چیزوں کو پڑھاتا ہے جس کی آج کے دور میں ضرورت نہیں ہے اور جو آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جو زمانے کے تقاضوں کو، آج کی سوسائٹی کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔آج گلوبل معاشرے میں اسلام زندہ ہے تو اس کے سامنے کس طرح کے theological challenges  ہیں اور ہمارا جو political theology او ریہ جو پورا ر فقہ پیداہوا ہے اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ (کیونکہ) اس سے مسائل پیداہورہے ہیں۔وہ جو ذمی کی بات کررہے ہیں۔اسلام جب ایک غالب سیاسی قوت تھا اس وقت یہ فقہ وجود میں آیاتھا۔اب تو وہ دور نہیں رہا۔ اب تو اسلام ایک سیاسی طاقت نہیں رہا مگر اب بھی پڑھایا اسی کو جاتاہے۔ اور پھر ساری کی ساری فقہ کی کتابیں جو پڑھائی جارہی ہیں وہ سب دسوی گیارہوں بارہویں صدی میں تیار کی گئی ہیں۔ اس وقت اسلام ایک سیاسی طاقت تھا۔ آج ہم ایک بالکل سیکولر دور میں رہ رہے ہیں۔ اب اس کی وجہ سے تضاد پیدا ہورہے ہیں کہ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں وہاں تو وہ کہتے ہیں کہ سیکولرزم تو ہمارے لئے انیٹی اسلام (اسلام مخالف) ہے لیکن جہاں جہاں وہ اقلیت میں ہیں وہاں کہتے ہیں کہ سیکولرزم ہمارے لئے رحمت ہے۔ تو ہمارے مسائل کی جڑ یہی (فقہ) ہے جب تک ہمارا مذہبی نقطہ نظر نہیں بدلے گا ہم کسی تبدیلی کی توقع نہیں کرسکتے۔“
مولانا سلمان حسنی ندوی بھی مدرسوں کے نصاب اور اسلامی فقہ کی غیر معنویت کے موضوع کو زور و شور سے اٹھارہے ہیں اور اس کے لئے وہ اپنی برادری کی تنقید کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔ مگر ان کے دلائل کو نظر اندا ز نہیں کیاجاسکتا۔ ایک ویڈیو تقریر میں انہوں نے اس موضوع پر جو کچھ کہاہے اس کا ایک اقتباس ذیل میں پیش ہے:
”اسلامی نظام میں جو اصل مصادر ہیں، مراجع ہیں، ماخذ ہیں یعنی قرآن پاک اور حدیث نبوی ﷺ، ان کے ساتھ مسلمانوں کا جو رابطہ ہونا چاہئے (وہ نہیں ہے)۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ صدیاں ایسے بیتیں اور دنیا کے ایسے حالات رہے کہ دھیرے دھیرے قرآن اور سنت کے مقابل شریعت کے متوازی دین وجود میں آتا چلاگیا۔ ایک ایسا دین کہ جس میں کسی کا ملفوظ، کسی کا قول، کسی کا فعل، کسی کی رسم، کسی کی روایت حجت بنتی چلی گئی۔ خانقاہیں اس میں مبتلاہوئیں، حلقے اس میں مبتلاہوئے، ادارے مبتلا ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنا زیادہ لوگوں نے نئے نئے ماخذتلاش کئے یوں کہئے کہ جو روایتی باتوں کی طرف رجوع کیا اتناہی زیادہ ان کا فاصلہ قرآن پاک سے اور حدیث نبوی سے بڑھتاچلاگیا۔ اور مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس کا احساس بھی زندہ نہیں رہتا۔بلکہ لوگ پھر اپنی عادتوں اور رسومات کو اتنی مضبوطی سے پکڑتے ہیں کہ ایک دوسری شریعت وجود میں آجاتی ہے۔ آج سب جانتے ہیں کہ جو رد ٗوکد دیوبندیوں اور بریلویوں میں رہاہے اس میں ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر اور مشرک بنانے پر تلارہا۔ اور جو اس کے نتائج ہیں برصغیر میں بہت ہی نمایاں ہیں۔ برصغیر سے ہٹ کر دنیا کے بہت سے ملکوں میں اسی طرح مختلف فرقے وجود میں آئے کہ جنہوں نے اپنی رائے کو اپنے خیالات کو اپنے بزرگوں کے ملفوظات کو ایسی حیثیت دے دی کہ جو حیثیت قرآن کو دینی چاہئے، حدیث کو دینی چاہئے، اسوہ رسول کودینی چاہئے، شریعت حقہ کو دینی چاہئے۔ ایک بات یوں کہی جانے لگی کہ جمہور کی یہ رائے ہے اور جمہور کی رائے کو حدیث کے مقابل پیش کیاجانے لگا۔ اسی ہندوستان کے ماحول کے بارے میں مولانا مناظر حسن گیلانی نے بھی لکھا ہے، مولانا سیدعبدالیحیٰ حسنی نے بھی لکھا ہے اور بہت سے حضرات نے،کہ ایک ایسا دور گزرا کہ یہاں بڑے بڑے علماء کا حال یہ ہوتاتھا کہ کوئی بحث چھڑ رہی ہے اور اس میں حدیث کا حوالہ دیاجائے تو صاف کہہ دیتے تھے کہ ہمیں حدیث نہیں چاہئے یہ بتائیے کہ فتاوٰی ٰمیں کیالکھا ہے، ہمیں یہ بتائیے کہ امام ابوحنفیہ کی کیارائے ہے۔ اس کا تذکرہ آ پ کو ہندوستان کی تاریخ میں ملیگا۔ تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علماء بھی اتنے دور ہوجاتے ہیں صحیح علم سے اور صحیح مراجع و ماخذ سے کہ آدمی صرف سر پیٹتا رہے اور افسوس کرتارہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہتا۔“
یوں تو جدید علماء ایک لمبے عرصے سے مدرسوں کے تعلیمی نظام میں اصلاح کی بات کررہے ہیں اور جدید عالمی معاشرے میں اسلامی فقہ کی معنویت پر سوال اٹھاتے رہے ہیں مگر اب خود مدرسے کے تعلیم یافتہ علماء بھی مدرسہ نظام اور اسلامی فقہ کی تشکیل جدید کی بات کرہے ہیں یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ امید ہے آنے والے دور میں زیادہ سے زیادہ علماء اس جانب پہل کرینگے اور اسلامی تعلیمی نظام کو نئے دور سے ہم آہنگ کرکے اسلامی معاشرے کو معاشی، سائنسی اور فکری پسماندگی سے نکالینگے اور انہیں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لانے میں اہم رول اد ا کرینگے۔

No comments:

Post a Comment