Sunday, March 1, 2020

Indian Muslim Clergy to Counter ISIS Propaganda داعشی پروپیگنڈا کے رد میں علمائے ہندکی طرف سےجہادزم کا عام مذمتی بیان کی بجائےموثر شرعی جوابی بیانیہ دینا ناگزیر


سلطان شاہین ، فاونڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
19 نومبر 2019
آؤٹ لک انڈیا ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہندوستان نے مسلم نوجوانوں کو داعش کے نظریہ جہاد کے جال میں پھنسنے سے روکنے کے لئے انٹرنیٹ پر مبنی "مذہبی رہنماؤں کا غیر سرکاری چینل" بنانا شروع کیا ہے۔ اس میں وزارت داخلہ امور (ایم ایچ اے) میں تعینات ایک سینئر آئی پی ایس افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ "اس (داعش آن لائن پروپیگنڈہ) کا مقابلہ اسی انداز سے کرنے کی ضرورت ہے ’’ اور یہ کہ محض مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے اس خطرے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ ا س رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ"مسلم علماء کو داعش کے بیانیہ سے نمٹنے کے لئے یوٹیوب چینل براڈ کاسٹ، سوشل میڈیا اور ویب سائٹوں پر اکاؤنٹ بنانے کی تربیت دی جائے گی’’۔
یہ ایک قابل ستائش پہل ہے اور اس کا خیرمقدم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں کچھ سنجیدہ غور و فکر کی بھی ضرورت ہے۔ علمائے کرام کو پروپیگنڈا ویڈیوں بنانے کی تکنیک سکھائی جاسکتی ہے۔ لیکن کیا یہ مواد کے بنیادی مسئلے کو حل کیے بغیر موثر ہوگا؟ مثال کے طور پر علمائے کرام کا بیان یا انسداد بیانیہ کیا ہوگا؟
آؤٹ لک انڈیا کی رپورٹ میں ایک اشارہ دیا گیا ہے کہ"علماء کو اس بات کی گزارش کی گئی ہے کہ وہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ذریعہ خواتین اور بچوں پر ہونے والے مظالم کو منظر عام پر لائیں ۔" لیکن کیا ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ علما اس طرح کی مہم میں حصہ لیں؟ اس مہم کو تو عام چینلز زیادہ مؤثر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ کوئی بھی پرنٹ صحافی یا ٹی وی کمنٹیٹر یہ کام انجام دے سکتا ہے ۔ یقینا ہمارا میڈیا اس کام کو برسوں سے موثر انداز میں انجام دے رہا ہے۔
ہمیں اگر علما کی ضرورت ہے تو صرف اس لیے کہ جہادی نظریات کا رد بلیغ کریں نہ کہ صرف یہ کہ وہ داعش کے مظالم ، اغواء ، جنسی غلامی، مسلمانوں اور غیر مسلموں پر حملوں وغیرہ کی مذمت کریں۔ کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا شخص ان ظلم وستم کی مذمت کر سکتا ہے اور اتنا ہی موثر بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء مذہبی تشدد اور تفوق پرستی کی مخصوص جہادی نظریات جو کہ بنیادی طور پر تمام مکاتب فکر کے اجماع پر قائم ہے ، پہلے اس کا رد کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کام امن وسلامتی اور رواداری پر مبنی اصول ونظریات کی روشنی میں ہو ۔اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے علمائے کرام کو ایک نئےنظریہ کو فروغ دینا ہوگا جو کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی روایتی نظریات سے مختلف ہو، کیونکہ یہ نظریات بہت پرانے ہیں جنہیں جہادی نظریات کے حاملین اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ آخر کیوں دنیا بھر کے ہزاروں نوجوانوں کے دماغ پر جہادی اپنا غلبہ قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔تو اس کا سبب یہ ہے کہ جہادی کوئی نئی بات نہیں کر رہے ہیں، یہ تو صرف انہیں چیزوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں جن کی تبلیغ واشاعت علمائے کرام کرتے آرہے ہیں۔ جہادی نظریہ تو وہی روایتی اسلامی نظریہ ہے جو دیگر تمام مذاہب کے عقائد پر تسلط قائم کرنے اور ہر اس چیز کو مٹانے کا دلدادہ ہے جسے یہ جرائم کبیرہ مانتی ہے ، ایسے جرائم جن کا ارتکاب انسانیت کر سکتی ہے، بالخصوص شرک، بت پرستی، کفر اور انکار نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ امام غزالی(گیارہوں صدی تا بارہویں صدی) سے لے کر امام ابن تیمیہ (13 ویں 14 ویں صدی)، مجدد الف ثانی شیخ سرہندی ( 16ویں 17 صدی)، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (18ویں صدی ) تک کے اسلام کے ممتاز علمائے کرام نے سیاسی اسلام کا ایک نظریہ پیش کیا ہے جسے بالآخر بیسویں صدی کے مولانا سید ابو الاعلی مودودی، حسن البنا اور سید قطب نے ایک خاص قسم کی شکل دی۔اگرچہ اکیسویں صدی کے جہادی نظریات کے حاملین نے اس روایتی نظریہ کے بعض گوشوں پر کافی افراط وتفریط سے کام لیا ہو مگر وہ روایتی نظریات سے کچھ زیادہ مختلف بات نہیں کر رہے ہیں۔
جہادی نظریہ کوئی ایسا نظریہ نہیں جو آسمان سے اچانک ٹپک آ پڑا ہو ۔ یہ نظریہ کوئی اسامہ بن لادن یا نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی کی پیداوار نہیں ۔جہادیوں کا یہ نظریہ کہ دنیا پر تسلط قائم کیا جائے اور ہر اس فرد سے جنگ لڑی جائے جو دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتے در اصل وہی نظریہ ہے جس کی تعلیم ہمارے تمام مدارس میں دی جاتی ہے ۔جہاد کی یہ تعریف کہ جو لوگ اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ان سے قتال کیا جائے یہ وہی تعریف ہے جو سنی فقہ کے تمام مذاہب ومکاتب کی کتب میں موجود ہے ، خواہ وہ حنفی ہو ، مالکی ہو ، شافعی یا حنبلی ہو ۔حتی کہ سیاسی معاملات میں شیعہ مکتب فکر کے نظریات بھی اہل سنت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، بلکہ شیعہ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کا غلبہ اور تمام غیر مسلموں پر اقتدار قائم کیا جائے ۔  
اس صورتحال کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھیں کہ آخر کس طرح مولانا وحید الدین خان جیسے امن ورواداری کے پرچارک کو بھی سیاسی اسلام کے تسلط کا گیت گانا پڑتا ہے، حالانکہ وہ مولانا مودودی کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ "ہزاروں سالو ں پر محیط انبیائے کرام کی جد وجہد نے یہ ثابت کردیا تھا کہ کوئی بھی عملی تحریک جس کا دائرہ کار فکری یا مشنری میدان تک محدود ہو، وہ لوگوں کو شرک وکفر کی گرفت سے آزاد کرنے کے لیے کافی نہ تھا ۔یہی سبب تھا کہ اللہ تعالی نے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی کے ساتھ ساتھ شرکیہ اور کفریہ عقائد کو مٹانے والا ماحی بھی بنا کر بھیجا ۔اللہ تعالی نے انہیں یہ فریضہ سونپا کہ وہ نہ صرف دنیا کو یہ بتائیں کہ اوہام پرستی پر مبنی شرکیہ وکفریہ عقائد کا انحصار ضلالت وگمراہی پر ہے بلکہ انہیں ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائی کرنے کی بھی ذمہ داری دی تاکہ اس نظام کفر وشرک کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے مٹایا جا سکے ۔’’ منقول از ‘‘اسلام دور جدید کا خالق ، مولانا وحید الدین خان " سن طباعت 2003 )۔
اگر واقعی ایسا ہی ہے تو حتی کہ وہ لوگ جو جہادزم کے سخت مخالف ہیں ان کے مطابق آخر جہادیوں کو کیوں یہ دعوی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کی صفحہ ہستی سے کفر وشرک جیسے جھوٹے عقائد کے خاتمہ کی سعی کرکے صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کر رہے ہیں ۔
دنیا سے کفر وشرک کے خاتمے کی فہرست میں انہوں نے صوفی مزارات ، مندروں اور گرجا گھروں پر قاتلانہ حملے کے مشن کو بھی شامل رکھا ہے۔ سلفی وہابی نظریات جن کی طرف موجودہ دور کے اکثر جہادی اپنی نسبت جوڑتے ہیں ان کے مطابق صوفی مزارات بھی شرک کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔
یہاں کچھ ایسےشدید اختلافات ہیں جو نہ صرف جہادی نظریے اور روایتی نظریے کے مابین ہیں بلکہ خود جہادی تنظیموں کے درمیان بھی ایسے اختلافات موجود ہیں۔مثلا داعش کا زیادہ تر زور، حدیث میں مذکور آخر زمانہ کے حوادثات سے متعلق نبی علیہ السلام کی پیشن گوئیوں پر ہوتا ہے اور یہ بات نوجوانوں کو خوب بھاتی ہے ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ القاعدہ نے اسے اتنی اہمیت نہ دی ہو لیکن اس کے باوجود کم از کم اس کے شوری کے دو ممبران کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اسلامی اسکیٹولوجی پر مبنی آخر زمانہ کے حوادثات کے متعلق پیشن گوئیوں پر یقین رکھتے تھے۔
روایتی علمائےدین کے مابین بھی ان احادیث پر کوئی تنازع نہیں جنہیں جہادی اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے ثابت کرتے ہیں کہ متعدد پیشن گوئیاں صادق بھی ہو چکی ہیں۔ اس طرح ان کے نزدیک دنیا ختم ہونے میں صرف کچھ عرصہ ہی رہ گیا ہو، یاجوج ماجوج کا ظہور بھی ہونے والا ہو، امام مہدی کا ظہور، دجال کا نکلنا ،اور پھرملحمہ کبری سے قبل حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد اور قیامت کا وقوع عنقریب ہو۔  
میں نے علما میں کوئی بھی ایسا گروہ نہیں پایا جو کتب حدیث میں مذکور احادیث کی صحت پر سوال کریں، اگرچہ وہ ان احادیث کے متعلق بعض اصطلاحات اور توضیحات کی مختلف تشریحات کرتے ہیں۔
غور طلب یہ ہے کے غزوہ ہندکی روایت بھی اسی پیشن گوئی والی حدیث سے مربوط کی جاتی ہے اور پاکستان کے مذہبی حلقوں میں تو غزوہ ہند کے فریضے کو انجام دینے کی باقاعدہ مہم بھی چلائی جاتی ہے۔
غزوہ ہند اس اسکیٹولوجی پر مبنی نظریہ کی پیداوار ہے۔اس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین پر قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ پاکستان کے مشہور ومقبول ترین علمائے دین بھی اس موضوع پر بار بار تحریروتقریر کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے دینی مزاج رکھنے والوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا سکیں کہ ان پر واجب ہے کہ وہ غزوہ ہند میں شریک ہوکر ہندوستان فتح کریں، اس سرزمین سے شرک کا خاتمہ کریں اور پھر اللہ تعالی کی طرف سے اجر کبیر حاصل کریں۔
جن احادیث پرغزوہ ہنداوردیگر ہزاروں پیشن گوئیاں مبنی ہیں ان کی صحت پر کافی تنازع ہے ۔ لیکن علمائے کرام اجماعی طور پر حدیث کو وحی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں اور اسے اتنا ہی قابل احترام سمجھتے ہیں جتنا کہ قرآن کریم۔حالانکہ لمبی سند پرمشتمل تدوین حدیث کا عمل نبی علیہ السلام کی وفات کے تین صدیوں بعدہوا ۔ ان اسناد کو صدیوں بعد صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا اگرچہ نویں صدی کے امام بخاری ، امام مسلم ،ابن ماجہ ،ترمذی ، امام نسائی ، ابو داؤد، وغیرہ جیسے محدثین نے جمع حدیث کا عمل بہترین کاوشوں کے ساتھ انجام دیا ہو۔ محدثین نے احادیث کی اسناد کو جانچنے کے لیے اصول وضع کئے پھر ان کی بنیاد پر احادیث کو مختلف انواع میں تقسیم کرکے ان پر صحیح ، حسن ، ضعیف ، موضوع، مقلوب ، جیسی اصطلاحات کا انطباق کیا۔ متقدمین محدثین میں امام بخاری (810 تا 870 عیسوی) کا نام شمار ہوتا ہے جن کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ انہوں تقریبا چھ لاکھ متداول احادیث میں تین لاکھ احادیث کو جمع کیا اور صرف دو ہزار چھ سو دو مرویات کو اپنی صحیح میں شامل کیا۔
 یہاں کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جو منہج حدیث کی اصل حیثیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔چھ لاکھ احادیث کا مجموعہ تھا جس کے تعلق سے معروف بات یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ آٹھ ہزار تین سو چوبیس احادیث موضوعات تھیں جن میں واضعین احادیث کی تعداد چھ سو بیس تک پہنچتی ہیں اور جن کے اسما بھی معروف ہیں ۔ (الغدیر ، الامینی، ج ۵، ص ۲۴۵)۔ حدیث گڑھنے والوں میں کچھ یہ ہیں : ابن جندب ، ابو بختاری ، ابن بشیر، عبد اللہ الانصاری السندی۔ایک تو ابن عوجہ ہیں جنہوں نے اپنی سزائے موت سے قبل یہ اعتراف کیا تھا کہ اکیلے انہوں نے چار ہزار احادیث گڑھیں تھیں (مشکوۃ المصبایح ، فضل کریم ، ص ۱ ، ص ۱۷ تا ۲۰)
لیکن اس کے باوجود علمائے کرام ان احادیث کی صحت پر کوئی شک کا اظہار نہیں کرتے جو کہ آخر زمانہ کا نظریہ پیش کرتی ہیں حالانکہ یہ مرویات ہمارے نوجوانوں کو بہت بھاتی ہیں، اسی کا نتیجہ تھا کہ بشمول ہندوستان دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ابو بکر بغدادی کی جنگی مشین کا حصہ بن گئے ۔ وہ تو صرف اپنی ترجیحات کے مطابق ہی ان احادیث کی تشریح بیان کرتے ہیں۔
نبی علیہ السلام کی طرف منسوب پیشن گوئیوں کا تو یہ حال ہے کہ ان میں اکثر کے تعلق سے اس دعوی کا امکان ہے کہ وہ کسی بھی دور میں صادق آ سکتی ہیں ۔ بعض مروایت کے مطابق ، خود نبی علیہ السلام کو مسیح دجال کے فتنے کا اندیشہ تھا اور اسی لیے وہ ہر دعا میں اللہ تعالی کی پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہر اس گھر کی طرف روانہ ہوتے جس میں کوئی کانا (ایک آنکھ والا) بچہ پید ا ہوتا اور یہ بھی معلوم کرتے کہ کیا کوئی ایسی نشانیاں بھی اس بچہ میں ہیں جو دجال کی آمد کی طرف مشیر ہوں ۔
اس طرح آخر زمانہ کے تعلق سے جو مسلم نظریہ ہے، اس کا چود ہ سو سے زائد برسوں سے اب تک انتظار ہے ۔ اسی صورت حال میں بغدادی کا ظہور ہوا جس نے اسی طرح کا مستند دلیل بنایا کہ آخر زمانہ قریب ہے کیونکہ مشرق وسطی اور وسطی ایشیا میں جو جنگیں چل رہی ہیں در اصل یہ وہی ہیں جن کے تعلق سےنبی علیہ السلام نے پیشن گوئی کی ہے اور یہ کہ اب مسیح دجال اور امام مہدی کا ظہور ہونے ہی والا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے مسلمان جن کو علمائے کرام نے اس قدر تعلیم دی کہ انہیں احادیث پر کافی اعتماد ہے وہ بآسانی بغدادی کی نظریات سے متاثر ہو جاتے ہیں جیساکہ ہم نے حالیہ دیکھا ہے ۔  
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام مدرسوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ، اسی طرح غیر مخلوق ہے جس طرح کہ خدا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ قرآن کی کسی بھی آیت کی عموم پر سوال نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ ان میں سے ہر ایک کی تاقیامت اتباع کی جائے گی اور اس کی ہر ہدایت مسلمانوں کے لیے دائمی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ آخر اسی سمجھ کے ساتھ کیسے کوئی جہادیوں کے مقاصد پر سوال قائم کر سکتا ہے کہ کیوں جہادی سورہ توبہ ، سورہ انفال اور دیگر سورتوں سے جنگی امور سے متعلقہ آیات سے استدلال کرتے ہیں اور پھر اپنے جہادی اعمال کا جواز پیش کرتے ہیں ؟
ہر وہ جنگ جو نبی علیہ السلام پر فرض کی گئی اس میں اپنے مد مقابل کو قتل کرنے کے احکام دئے گئے، مگر ان احکام پر ادائیگی اس وقت ساقط ہو جاتی ہے جب جنگ ختم ہو جاتا ہے ۔مگر ایسا اس وقت نہیں ہوتا جبکہ یہ مان لیا جائے کہ حکم اس کتاب میں درج ہے جو خود خدا کی طرح غیر مخلوق ہے۔ تب تو اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کونسا حکم عام اور کونسا حکم منسوخ ہے ۔ مولا نا طاہر القادری جنہوں نے چھ سو صفحات پر مشتمل فتوی آن ٹیررزم کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ان سے جب میں نے پوچھا کہ کیا قرآن کریم کی جنگی حالتوں سے متعلقہ آیات جو مسلمانوں کو تعلیم دیتی ہیں کہ وہ مشرکوں کا قتل کریں ، وہ آیات کیا اب بھی قابل عمل ہیں تو انہوں نے جواب ہاں میں دیا اور کہا کہ جی ہاں تمام آیات ہمیشہ کے لیے قابل عمل ہیں ۔
قرآن مجید میں متعدد آیات ایسے ہیں جو مشکل اوقات میں رواداری ، ہم آہنگی، امن اور صبر وثبات قدمی کی تعلیم دیتے ہیں، حتی کہ ان اوقات میں بھی جب کہ مکہ میں اسلام کی ابتدائی دور میں مسلمان اذیتوں سے دوچار تھے ۔ مگر کلاسیکل تھیولوجی کی وہ کتابیں جو مدارس اور جہادی ادب میں پڑھائی جاتیں ہیں ان میں یہ درج ہے کہ امن ورواداری سے متعلقہ آیات سورہ توبہ کی آیۃ السیف سے منسوخ ہو چکی ہیں جوکہ مسلمانوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ مشرکوں کا خاتمہ کریں اوریہود ونصاری کو زیر تسلط لائیں۔ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ سورہ توبہ کا نزول نبوی دور کے اخیر حصہ میں ہوا اور اسی وجہ سے اسے خدا کا آخری پیغام مانا جانا چاہیے جس نے کفار ومشرکین کے ساتھ معاملات کی سابقہ تمام احکامات کو منسو خ کر دیا ہے ۔
ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جنگ لڑنے کے احکامات نے ان احکامات کو منسوخ کر دیا ہے جن کا نزول ابتدائی دور میں ہوا تھا جب مسلمان بہت کمزور حالت میں تھے، لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، یہ وہ احکامات تھے جن میں اذیت وبربریت کی حالت میں صبر وتحمل کی تعلیم دی گئی تھی۔جہادی نظریات کے حاملین اور ہمارے اکثر علما عقیدہ نسخ پر حد درجہ اتفاق رکھتے ہیں۔
جو علما اس طرح کی فہم ومعرفت رکھتے ہیں انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جہادیوں پرکوئی مستنداعتراض قائم کرسکیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ہمارے نوجوان ان علما کو منافقین کہتے ہیں ۔ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ، ایماندار اورمخلص ہیں ۔ان نوجوانوں میں سے سارے لوگ جہادیوں کےہاتھ میں اپنا ہاتھ یقینا نہیں دیتے لیکن ان میں سے اکثر نوجوان علما کی منافقت کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح ایسے کی مذمت کر رہے ہیں جو اپنی جان اور اپنا کیریر داو پر لگاکر انہیں کاموں کو انجام دے رہے ہیں جن کی نشر واشاعت خود یہی علما کر رہے رہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان نوجوانوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو دوسری راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ ان احکامات کو عملی جامہ پہنا سکیں جن کی انہیں آن لائن یا آف لائن تعلیم دی گئی ہے، اور اس کی ایک وجہ تو علما کی منافقت کا رد عمل ہے ۔
معتزلہ کہلانے والے عقلیت پسند مذہبی ماہرین کو دوسری صدی ہجری یا نویں صدی عیسوی کے وسط تک پوری آزادی سے یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے نظریہ قرآن کی نشر واشاعت کر سکیں اور یہ بتا سکیں کہ قرآن مخلوق ہے ۔ لیکن اس کے بعد سے ہی روایتی علما نے اپنا تسلط قائم کیا اور روایتی علما کی تعلیمات کی تقلید کی پالیسی کی اقتدا کی اور خدا داد اجہتاد کی صلاحیت کو بروئے کار نہ لاسکے ۔اور اس طرح اجہتاد کا دروازہ تقریبا ایک ہزار سال سے بند ہے ۔
علما کی اس بالادستی کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ عثمانی سلطنت میں قریب چار صدیوں تک پابندی عائد پرنٹنگ پریس کی درآمد کے مسئلے میں دیکھنے کو ملا۔ علماء نے کہا کہ پرنٹنگ پریس شیطان کی ایجاد ہے، کیوں کہ اس کی ایجاد وترقی یورپ میں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں فکری پسماندگی پیدا ہوگئی جو آج تک جاری ہے۔ حالات اب بھی زیادہ نہیں بدلے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں واقع مدارس میں سب سے زیادہ موثر دار العلوم دیوبند ہے جس نے حال ہی میں بہت بے رخی سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی اور وہ بھی صرف اسلامی دعوت کے مقاصد کو انجام دینے اور دوسروں کو اسلام قبول کرنےکی دعوت دینے کے لیے ہی جائز بتاتے ہیں۔
یہ بالکل واضح ہے کہ علما اس پریشانی کا ایک حصہ رہے ہیں جس کا سامنا صدیوں سے مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے ۔حتی کہ جہادی عسکریت پسندی تشدد اور بالادستی کے نظریے کی ایک ذیلی پیداوار ہے جس کی وہ مدارس میں تعلیم دے رہے ہیں۔ اب اچانک کیا وہ حل کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یقینا وہ ایسا بن سکتے ہیں مگر تبھی جب وہ ایسا کرنے کا ارادہ کریں۔تاہم اس کام کو انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ موجودہ دور کے حالات وقرائن پر نظر کرتے ہوئے مناسب اور منظم منہج کو بروئے کار لاکر مذہب کی فروعی نظریات پر از سر نو غور وفکر نہ کرلیں۔ جہادزم کا رد کرنے کے لیے انہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ جہادی لٹریچر کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ ان کے اپنے نظریات کا وہ کونسا حصہ ہے جس کا استعمال جہادیوں کی جانب سے ہو رہا ہے اور جس کی بنا پر وہ لوگ دنیا بھر میں تباہی مچا رہے ہیں۔اگر وہ مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ کیا تبدیلیاں وہ اپنے نظریات میں بنا سکتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ جہادزم کا رد بلیغ کر سکیں ۔
اسلامی فقہ کا ایک ضابطہ مقاصد الشریعہ پر نظر کرنا ہے جو بشمول متعلقہ دیگر جزئیات مثلا مصلحت اورعموم بلوی، بیشتر معاملات میں بہت حد تک رخصت عطا کرتا ہے تاکہ موجودہ دور کے مقتضیات کو بروئے کار لایا جا سکے ۔ اس بات کا اعتراف ہے کہ تنقیحات واصلاحات کے لیے یقینا انقلابی سطح کی پیش رفت درکار ہے کیونکہ یہ کام اتنا آسان نہیں کہ ایک طائرانہ نظر سے ہی انجام تکمیل عبور کر لیا جائے ۔ اس سمت اب تک تو کوئی کام نہیں ہوا ، حالانکہ علما کو جہادزم کا رد بلیغ کرنے کی درخواست کرنے والی حکومتیں علما کے بے اثر اور منافقانہ بلاغت کو بخوشی قبول کر چکی ہیں، اور دیکھا تک نہیں کہ ان کی ان بلاغتوں کا ہلکا بھی اثر نہیں ہورہا ہے ۔
جہادی لٹریچر اور مدارس میں پڑھائے جانے والی روایتی تھیولوجی میں بسے بنیادی جہادی جڑوں پر میرا مطالعہ دہائیوں سے ہے اور اسی بنیاد پر میں یہ موقف رکھنا چاہوں گا کہ کم از کم مندرجہ ذیل نکات کو علمائے کرام جہادی نظریات کے رد وابطال میں زیر غور رکھیں تاکہ ان کا یہ عمل موثر ثابت ہو سکے۔ان پر ضروری ہے کہ وہ ان نکات کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے پورے اصولی اصطلاح ومنہج کے ساتھ اطمینان بخش جواب دیں اگر وہ واقعی چاہتے ہیں کہ نوجوانوں پر اس کا مثبت اثر ہو سکے اور پھر وہ مزید تشدد کی راہ اختیار کرنے سے باز رہ سکیں۔
۱۔ جہاد فی سبیل اللہ لازما نفس اور برے افکار وخیالات کے خلاف دائمی جد وجہد کرکے حقوق اللہ کی ادائیگی کا نام ہے ۔ یہ ایک مستقل جدوجہد ہے جس کا سامنا مسلمانوں کو ہمیشہ کرنا پڑتا ہے، تاکہ ان کا دماغ خدا کے ذکر سے نہ بھٹک جائے۔ یہ مسئلہ علمائے کرام کے لیے بہت مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ فقہ کے مذاہب اربعہ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ کا مطلب دعوت اسلام کی نشر واشاعت اور پھر ان سے قتال کرنا جو اسے قبول نہ کریں۔ تاہم اسے کرنا ضروری ہے اگر واقعی جہادزم کا رد بااثر انداز میں کرنے کا ارادہ ہو ۔
۲۔ اللہ کی راہ میں قتال کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے لیکن یہ جہاد اصغر ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا (holy war) مقدس جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں مقدس جنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کبھی کبھا ر جہاد فی سبیل اللہ مذہبی اذیت وبربریت اور ظلم وستم کے خلاف لڑی جا سکتی ہے اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ کہ جسمانی قابلیت ہو اور متفقہ اسلامی ریاست کے حکمران کے حکم تلے ہو۔تاہم اس کا مقابلہ نہایت سخت شرائط کے ساتھ کرنا پڑا تھا جیسے کسی اسلامی ریاست کا دفاع میں لڑنا یا جنگ کا اعلان پہلے ہی کرنا، دشمن ریاست سے تمام معاہدوں کو ترک کرنا ، کسی بھی حالت میں غیر جنگجوؤں کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا ، وغیرہ۔ گروہ یا افراد کسی بھی حالت میں حق نہیں رکھتے کہ کسی طرح کی جنگ میں شریک ہو جائیں اور پھر اسے جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیں۔
۳۔ قرآن کریم کی وہ آیات جن کا تعلق جنگی امور سے ہے ، مثلا سورہ توبہ ، سورہ انفال، سورہ مائدہ ، سورہ بقرہ اور سورہ حج وغیرہ، تو ان آیات کا استعمال مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف دائمی جنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔ یہ ان آیتوں کا ایک مجموعہ ہے جو ابتدائی مکی دور میں محمد ﷺ پر اس آفاقی مذہب کے لئے ہدایات کے طور پر نازل ہوئی ہیں جو زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ہی تمام قوموں کی طرف ایک ہی پیغام کے ساتھ بھیجے جانے والے مساوی حیثیت کے متعدد رسولوں(قرآن136 :2) کے ذریعہ بھیجا گیا ہے۔ لہذا، وہ ابتدائی آیتیں جو ہمیں امن اور ہم آہنگی، حسن معاشرت، صبر، رواداری اور تکثیریت پسندی کی تعلیم دیتی ہیں قرآن کی بنیادی اور تعمیری آیات ہیں۔ یہی اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔
لیکن قرآن میں بہت ساری ایسی سیاق و سباق والی آیتیں بھی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لئے سخت اور مشکل ترین حالات سے نمٹنے کے لئے بطور احکام و ہدایات نازل ہوئیں تھیں اس لئے کہ مشرکین مکہ اورمدینہ کے اکثر اہل کتاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آنے والے خدا کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے چند صحابہ کو نیست و نابود کرنے کا عزم مصمم کرلیا تھا ۔ یہ آیتیں عظیم تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہمارے مذہب کو قائم کرنے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسی ناقابل تسخیر پریشانیوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اپنی تاریخی اہمیت کے باوجود 1400 سو سال قبل جب جنگ ختم ہوگئی اور اللہ کے فضل سے اس میں مسلمان فتح یاب ہو گئے تو اب یہ احکام و ہدایات ہمارے لئے قابل اطلاق نہیں ہیں ۔ ہم ابھی کسی جنگ کی حالت میں نہیں ہیں۔ جہادی مفکرین جواپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ان آیات کا غلط استعمال کرتے ہیں، حتی کہ وہ روایتی علما جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان کا نفاذ آج کی ایکیسویں صدی میں بھی لازم ہے، تو درحقیقت وہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اس کے خلاف عمل کو انجام دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس جال میں پھنسنے کی ضرورت نہیں ۔
۴۔ آج جس انداز میں بنیاد پرست عناصر اصول نسخ بیان کرتے ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہے۔ خدا کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑےسوائے ایسے چند احکامات کے جن کا حکم اور اطلاق و انطباق عارضی ہو جیساکی جنگ سے متعلق آیتیں۔یہاں تو کوئی سوال ہی نہیں کہ مکی آیتیں جو مشکل اوقات اور ناگزیر حالت میں امن ورواداری اور باہمی عمدہ سلوک کی تعلیم دیتیں ہیں وہ مدنی آیتوں سے منسوخ ہیں۔ اس بات کی خبر تو ہمیں واضح طور پر تفسیر کی مختلف کتابیں دیتیں ہیں اور اسی کی مدارس اپنے بچوں کو تعلیم دیتیں ہیں۔   
اٹھارہویں صدی کے اسکالر شاہ ولی اللہ دہلوی جیسےمفسرین نے منسوخ آیتوں کی پانچ سو آیتوں کی تعداد سے گھٹا کر صرف پانچ بتائے ہیں۔لیکن اس کے باوجود موجودہ دور کے مفسرین قرآن متقدمین کی اتباع کرتے ہیں اور صرف اسی کو نقل کرتے ہیں جس کو متقدمین نے ایک مختلف سیاق اور مختلف مقام میں خاص کرکے کہا تھا ۔ تفسیر کی قدیم کتابوں کایہاں تک دعوی ہے کہ ایک آیت السیف اکیلے ہی ۱۲۴ منسوخ آیات کے لیے ناسخ ہے جن کا نزول مکہ کے ابتدائی دور میں ہو اتھا ۔ بیسویں صدی کے غلام احمد پرویز جنہوں نے نسخ کے نظریہ کو باطل قرار دیا تھا انہیں ہمارے علما ‘‘عقل پرست’’ کہتے ہیں ، مانو کہ عقل پسندی ہونا اسلام میں کوئی جرم ہو ۔  
بس بہت ہو چکا، اب اس طرح کی باتیں بند ہونی چاہیے پھر ہمیں لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ امن ورواداری کی تعلیما ت پر مبنی مکی آیتیں بعد میں نازل ہونے والی ان مدنی آیتوں سے منسوخ نہیں جو مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف جنگ کی تعلیم دیتیں ہیں۔مدنی آیتوں کا تعلق صرف ان ہی اوقات وحالات میں تھا جن کے لیے نبی علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا، جیساکہ سورہ توبہ کا نزول نبی علیہ السلام کے غزوہ تبوک (۶۳۰ عیسوی مطابق ۹ ہجری)کے موقع پر ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اسے قابل نفاذ نہ مانا جائے کیونکہ جنگ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
۵۔ آئی ایس آئی ایس اور دیگر بنیاد پرست نظریات کے ذریعہ پیش کردہ ملحمہ کبری تھیوری کی بنیاد مشکوک احادیث پر مبنی ہے اور اس کی حیثیت نہیں ، اسی وجہ سے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسے سنجیدگی سے نہ لیں۔
عسکریت پسند نظریاتی لوگ اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کے لئے متعدد احادیث کا حوالہ دیتے ہیں۔ پاکستانی مذہبی اسکالروں نے نام نہاد غزوۃ الہند (ہندوستان کے خلاف مذہبی صلیبی جنگ) کے بارے میں جو بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا ہے، وہ بھی در اصل آخر زمانہ کی تھیسس کا ایک حصہ ہے۔ اس بات پر زور دینا ہوگا کہ حدیث (موضوع حدیث) کو وحی کے ساتھ الجھایا نہیں جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی کتابت کا کام فورا شروع نہیں ہوا تھا۔ہاں قرآن مجید کی کتابت اور حفظ کا کام فورا اور متعدد صحابہ کرام کے ذریعے ہوا۔ حدیث کی روایت ایک طویل سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے ۔ ہزاروں احادیث متعدد وجوہات کی بناء پر جعلی قرار دی جاتی ہیں۔ لہذا احادیث جو عام طور پر کافروں کے خلاف جنگ کا مطالبہ کرتیں ہیں یا وہ احادیث جو حتمی وقت کی جنگوں سے متعلق ہیں ان کا استعمال غزوہ ہند جیسی نئی جنگیں شروع کرنے کے لئے نہیں کیا جا سکتا ۔
۶۔ تکفیرزم اسلام میں ناقابل قبول ہے۔ اللہ تعالی نے روہین رسالت یا ارتداد کے لیے کسی سزا کا قانون متعین نہیں فرماتا۔ نہیں اس نے کسی انسان ، حاکم یا اسکالر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی سزا دیں۔اگرچہ یہ ثبوت مل جائے کہ کسی نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے، تو اس صورت میں بھی سزا کا معاملہ صرف اللہ تعالی کے حوالہ ہونا چاہیے ۔لہذا مفروضہ ارتداد یا توہین رسالت یا باطل عقائد واعمال کی بنا پر تکفیر کے تمام احکام کو ناقابل عمل مانا جائے ۔  
 اس سلسلے میں مسئلہ ارتداد پر سزا کا جواز دینے کے لیے ردہ جنگوں کی تاریخی مثال کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ردہ جنگیں لڑیں لیکن وہ ایک بہت ہی مختلف زمان ومکان میں واقع ہوئیں۔ہمیں اس بات کا قطعی علم نہیں کہ آخر کس وجہ سے وہ ایسی جنگیں لڑنے پر مجبور ہوئے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام سمجھنے کے معاملے میں آج ہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔وہ تو پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام کو قبول کیا اور تئیس سالہ نبوی دور میں حضور علیہ السلام کے سب سے قریبی ساتھی بھی رہے تھے۔ آج ہم ردہ جنگوں کی تاریخی واقعات کا حوالہ دے کر ارتداد کے کسی مفروض مجرم کو سزائے موت کا حکم نہیں سنا سکتے ۔
عقیدہ کے معاملات میں تاریخ اچھی راہنما نہیں ہے۔ تاریخ کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخ اکثر اس وقت کے حکمرانوں کے لئے موزوں تیار شدہ کہانیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے منھ نہیں موڑنا چاہیے کہ قرآن وسنت کوئی سزا تجویز نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ ہم میں سے کسی کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان گناہوں کی وجہ سے دوسروں کو سزائے موت دیں۔ یہ معاملہ اللہ تعالی اور ایک مسلمان کے مابین ہے۔ آئیے ہم وعدہ کریں کہ جو کام اللہ کے دست قدرت میں ہے اسے اسی کے حوالہ کریں اور اس میں دخل اندازی نہ کریں۔ آئیے ہم قرآن و حدیث کی بنیاد پر تمام تکفیری سزاؤں اور ردہ جنگوں پر پابندی عائد کریں۔
۷۔ اسلامی تاریخ میں طویل عرصے تک ، خود کو خلیفہ کہنے والے مسلمان بادشاہ سامراجی جنگوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے علاقوں کا پھیلاو اور وسیع کرتے رہے۔ علمائے دین نے اس زمانے میں مسلم صحیفوں کی ترجمانی اس انداز سے کی تھی جو ان اوقات کے مطابق تھی۔ ان جنگوں کو اسلام کے محاذوں کو وسعت دینے کے لئے جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا گیا۔ اب ہم جدید قومی ریاستوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے بین الاقوامی تعلقات اقوام متحدہ کے چارٹر کے رہنمائی اصول کے پابند ہیں جس پر پوری مسلم اکثریتی ریاستوں سمیت پوری دنیا نے دستخط کیے ہیں۔ آج کسی بھی ریاست کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ نئے علاقوں کو فتح کرے اور وہاں اپنی حکمرانی قائم کرے جیسا کہ بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں تک معمول تھا۔ لہذا یہ فکر کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی فریضے کو انجام دینے کے لیے سال میں کم از کم ایک بار جہاد کرنا چاہئے، اس فکر کو ترک کر دینا چاہیے، اس سے قطع نظر کے اس فکر کو امام ابو ابو حامد محمد الغزالی (1058 تا 1111 عیسوی) جیسے قد آور عالم دین نے لازمی قرار دیا تھا۔ اس میں شائبہ ہے کہ اس طرح کی تشریحات کرتے وقت بھی کسی طرح کی نقلی دلیل وجواز شامل رہی ہو ۔ اس دور میں یہ بالکل ناقابل عمل ہے اور خدا ہمیں ناممکن کام کو انجام دینے کا بوجھ ہم پرنہیں ڈالتا (قرآن 2: 286)۔ قرون وسطی کی اس طرح کی تشریحات جو تشدد اور نفرت پر ابھارتیں ہیں انہیں مدرسہ کی نصابی کتب سے ختم کردیا جانا چاہئے۔
۸۔ نہ تو قرآن میں نہ ہی حدیث میں مسلمانوں کے لئے عالمی خلافت کے مطالبہ کی کوئی صحیفی اجازت ہے۔ رواداری پر مبنی جدید ریاستیں میثاق مدینہ کے فراہم کردہ آئین کے تحت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ تیار کردہ پہلی اسلامی ریاست کے مطابق ہیں۔ مسلمانوں کو عالمی خلافت کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ مسلم اکثریتی اقوام قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں آپسی بھائی چارے کے جذبے میں زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کا تعاون کرسکتے ہیں اور یہاں تک کہ یوروپی یونین اور دیگر علاقائی گروہوں کی طرز پر مسلمان ریاستوں کی مشترکہ دولت تشکیل دے سکتے ہیں۔خلافت عثمانیہ کی تحفظ کی خاطر ہندوستان میں تحریک خلافت نے ایک صدی قبل جو جذبات پیدا کیے تھے وہ اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اس تحریک کے عدم جواز کا نئے سرے سے مطالعہ کیا جائے اور اس کی کوتاہیوں کو منظر عام لایا جائے۔
۹۔ جدید جمہوریت قرآن کریم کی تعلیم ‘‘امرھم شوری بینھم’’ کی نصیحت کی تکمیل ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جن ممالک میں وہ رہتے ہیں خواہ وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ یہ صحیح ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ابتدائی تیس سالوں کے دوران ہی اسلامی تاریخ میں اقتدار کی منتقلی جمہوری انداز میں ہوئی ہو۔ اس وقت سے لے کر اب تک امرھم شوری بینھم کا قرآنی حکم (شوری 42:38) پر عمل نہیں ہو رہا ہے ۔ قرآن کے مکمل انسانی مساوات کے پیغام (الحجرات :۴۹:۱۳) کے ساتھ ساتھ امرھم شوری بینھم نے جدید جمہوریت کا کامل نظریہ فراہم کیا۔ لیکن ان دونوں قرآنی احکام پوری اسلامی تاریخ میں نظر انداز کیا گیا ۔ہماری تاریخ بڑے پیمانے پر استبداد پسند حکمرانوں کی کہانی ہے جو تقویٰ کے لباس پہنے ہوئے ہیں اور بیشتر علمائے کرام نے قرآن کی آفاقی ہدایتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے گمراہ کن فتووں کے ساتھ ان کے آمرانہ اور سامراج کی حمایت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں آج بھی بہت کم مسلم ممالک ایک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جمہوریت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ جہادی نظریات کے حاملین اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں کہ جمہوریت طاغوتی نظام ہے، لیکن اب یہ زیادہ تر اسلام دشمن یا مغربی سامراج کے ایجنٹ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس کو مسترد کریں اور اس کا پر زور رد کریں۔ جمہوریت اسلامی طرز حکمرانی کی بہترین روایات میں سے ہے۔ ہمارے پہلے چار خلفاء ، خلفائے راشدین کا انتخاب جمہوری طور پر پورے مسلمانوں کی اتفاق رائے سے ہوا تھا۔ تشدد کی تعلیم دینے والی نظریات جو مسلمانوں کو دعوت دیتیں ہیں کہ وہ حکومت الہیہ یا اقامت دین کے لیے جد وجہد کریں انہیں پوری طرح مسترد کردینا چاہیے ۔ جمہوریت ہمارے لیے خدا کی طرف سے منتخب کردہ راستہ ہے اور اسی کی پیروی ہمارے سلف صالحین نے اس وقت تک کی جب تک وہ کر سکتے تھے۔ ان سلف صالحین کی مخالفت میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی تین دہائیوں کے جمہوریت کے نظام کو ظالمانہ آمروں نے مغلوب کیا جس نے شاہی طرز کا موروثی خلافت قائم کیا۔ چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف لڑے اور امام حسین نے خلافت کو موروثی بادشاہت میں بدلنے والی نظام کے خلاف اپنی جان تک کی قربانی پیش کردی۔
۱۰۔ اسلام دنیا پر تسلط قائم کرنے کامطلق العنان سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ اگرچہ اسلام ہماری زندگی کے مختلف معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، لیکن یہ بنیادی طور پر نجات کا روحانی راستہ ہے جسے خدا نے انسانوں کے پاس مختلف انبیاء کے ذریعے بھیجا ہے (قرآن 5:48) ، سب بلا تفریق (قرآن 2: 136 ، 21:25 ، 21:92)۔ خدا نے ہم سے نیک اعمال انجام دینے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تعلیم دیا ہے (قرآن 2:148 ، 23:61) اور اسی چیز پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ چونکہ قرآن تمام سابقہ عقائد کی تصدیق اور توثیق کرنے آیا تھا، لہذا ہم دوسرے مذاہب کا احترام اور اسی مقدس راہ کی دعوت دینے والوں کو قبول کرسکتے ہیں۔ اسلام دیگر مذاہب میں سب سے زیادہ رواداری پر مبنی ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کو لوگوں میں سب سے زیادہ تکثیر پسند ہونا چاہئے۔
۱۱۔ تمام مذہبی گروہوں کا فیصلہ ان کی اپنی شریعت کی بنیاد پر قیامت کے دن کیا جائے گا۔ لہذا یہ کہنا کہ مسلمان ہی جنت میں جائیں گے یہ بے بنیاد ہے۔ قرآن نے خاص طور پر یہودی جیسی سابقہ مذہبی گروہوں کی مثال پیش کرتے ہوئے ایسے خیالات کی ممانعت کی ہے جو اپنے آپ کو "منتخب لوگ" سمجھتے ہیں۔ در حقیقت قرآن نے ان یہودیوں کے دعویٰ کو خارج کر دیا جو جنت کو صرف اپنے لیے خاص مانتے تھے (2:94) ۔ خدا تمام مذہبی گروہوں کا ان کے اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرے گا جو ان کو دیئے گئے ہیں (قرآن 5:48)۔ یہاں کوئی منتخب قوم نہیں جو اکیلے ہی جنت میں جائیں گے۔ مسلمانوں کے پاس کسی دوسرے مذہبی گروہ کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 ۱۲۔ الولاء والبراء کا عقیدہ بنیاد پرست عناصر کے ذریعہ ہمارے مدارس بالخصوص سعودی عرب میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ موجودہ معاشرے میں انتہائی پیچیدہ اور عالمی معاشرے میں غلط فہمی کے ساتھ ساتھ غیر عملی بھی ہے۔ آج یہ ممکن نہیں کہ صرف مسلمانوں کے ساتھ رشتے قائم کیے جائیں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات توڑ لیے جائیں ۔ مدارس کے نصاب جو اس طرح کی تعلیمات دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے نصاب کی ترمیم کریں کیونکہ یہ ہمارے بچوں کو سماج میں ایک باوقار زندگی جینے سے محروم رکھتےہیں۔ اس عقیدے کا مطلب ہو سکتا ہے مسلمانوں کی آپسی وابستگی اور اخو ت ورواداری جس کی قرآن بھی ترویج واشاعت کرتا ہے ۔(قرآن 49.10) مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسری مذہبی جماعتوں سے تعلقات ختم کر دیا جائے ۔ قرآن تمام انسانوں کو یکساں طور پر عزت و احترام دیتا ہے (قرآن 17:70)۔
۱۳۔ الولاء والبراء کا عقیدہ جس کی غلط تعبیرات کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوتا ہے یہ عقیدہ تکفیر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو دوسرے فرقے کے مسلمانوں سے بھی تعلقات منقطع کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بہت سارے مسلم علماء دوسرے مسلم فرقوں کو کافر قرار دینے کے لئے تکفیر کے نظریے کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دوسروں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں اور پھر ان کو قتل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شیعوں ، احمدیوں اور صوفیوں پر حملے تواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ در حقیقت ، مشرق وسطی میں یہ سنی شیعہ رسہ کشی ہی تھی جس نے نام نہاد اسلامی ریاست کے عروج کو بڑی مدد کی۔ علمائے کرام کو ان دونوں عقائد کے خلاف پرزور آواز اٹھانا چاہیے اورجس طرز عمل کے ساتھ انہیں انجام دیا جا رہا ہے اسے غیر اسلامی فعل قرار دینا چاہیے۔
 ۱۴۔ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ایک خوبصورت اسلامی عقیدہ ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اس کو دوسرے پر جبر کرکے زیر عمل نہیں لایا جا سکتا ۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معروف اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی نے واضح کیا ہے کہ معروف اصطلاح میں اسے کہتے ہیں جو عالمی سطح پر سب کے نزدیک مقبول ودرست ہو اور منکر وہ ہے جو جس کو عالمی سطح پر لوگوں نے غلط مانا ہو۔ اس نظریے میں لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اور انہیں کفر کرنے سے جبری طور پر روکنا شامل نہیں ہے۔ جو لوگ اس نظریے کو مذہب کے معاملات میں طاقت کا استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہیں اور ان کی مخالفت کی جانی چاہئے۔ علمائے کرام کو معروف اور منکر جیسی اصطلاحات کے بارے میں ان کی تفہیم پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس نظریہ کو نافذ کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کے خلاف بات کرنا ہوگا۔
 ۱۵۔ لا اکراہ فی الدین جس کا مطلب ہے دین میں کوئی جبر نہیں یہ ایک مطلق اور آفاقی قرآنی نظریہ ہے اور کسی بھی حالت میں اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کی متعدد دوسری آیات جیسے 10:99 اور 18: 29 اسی نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔ آیت 18:29 اسی نظریہ پرزور ڈالتا ہے : "وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ’’۔ علمائے کرام کو قرآن کی ان آفاقی تعلیمات کو نظرانداز کرنا چھوڑنا چاہئے ، جیسا کہ وہ اب کرتے ہیں ، اور اس کے بجائے اگر وہ واقعتا جہادزم کے خلاف کوئی رد بیانی کرنا چاہتے ہیں تو ان آفاقی عدم جبر واکراہ کی تعلیمات کی تشہیر کرنا شروع کردیں۔
 ۱۶۔ تمام مذہبی گروہوں کو اہل کتاب سمجھا جانا چاہئے جن کے ساتھ ازدواجی تعلقات سمیت انتہائی گہرے تعلقات تک کی اجازت ہے۔ کیونکہ قرآن کے مطابق، خدا نے تمام قوموں میں انبیا کو بھیجا ہے، ان پر وحی نازل کی جو کتابی شکل میں جمع ہوئی۔ ان میں سے کچھ انبیاء کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے لیکن بہتوں کا نہیں۔ ایک حدیث کے مطابق انبیا کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں آئے تھے اور اپنے وقت اور مقام کی زبانوں میں خدا کا پیغام لاتے تھے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا واقعتا قرآن میں اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔
‘‘اور ہر امت میں ایک رسول ہوا جب ان کا رسول ان کے پاس آتا ان پر انصاف کا فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر ظلم نہیں ہوتا’’ (۱۰:۴۷)
‘‘اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے کہ جن میں کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا اور کسی رسول کو نہیں پہنچتا کہ کوئی نشانی لے آئے بے حکم خدا کے، پھر جب اللہ کا حکم آئے گا سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور باطل والوں کا وہاں خسارہ’’ (۴۰:۴۸)
‘‘یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو اتارا گیا ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کئے گئے موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ اور جو عطا کئے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں’’ (۲:۱۳۶)
‘‘اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے اور سب شہر کے ساکن تھے تو یہ لوگ زمین پرچلے نہیں تو دیکھتے ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر تو کیا تمہیں عقل نہیں،’’(۱۲:۱۰۹)
‘‘سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے،’’ (۲:۲۸۵)
روایتی اسلامی تھیولوجی قرآن مجید کی ان آیات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ امن اور تکثیریت کے ایک نئے واقعی اسلامی تھیولوجی کو تیار کرتے ہوئے علمائے کرام کو خدا کے ان احکام کو دھیان میں رکھنا چاہئے جو ہمارے وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی ہوگا اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے لڑنے میں ہماری مدد بھی کرے گا۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے اسلام ایک ایسے سماجی نظریہ پر زور دیں جو تمام لوگوں کو کامل مذہبی آزادی عطا کرے۔ابتدائی دور میں جب مسلمانوں کو اسلحہ سے اپنے دفاع کی اجازت دی گئی تھی تو ان سے کہا گیا تھا کہ یہ اس وقت ضروری ہے کہ وہ تمام مذہبی قوموں کی مذہبی آزادی کے تحفظ کی خاطر لڑیں۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے ‘‘اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے’’(22:40)۔
اس آیت میں واضح طور پر مسلمانوں کو تمام لوگوں کی مذہبی آزادی کے لیے لڑنے کو کہا جا رہا ہے نہ کہ صرف مسلم مذہبی آزادی کے لئے۔ لہٰذا ایسے میں مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر اس جگہ آواز اٹھائیں جہاں کہیں بھی مذہبی اقلیتیں اذیتوں سے دو چار ہوتے ہوں، بالخصوص ان ممالک میں جو مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ مذہبی آزادی اور حقوق انسانی دونوں ناقابل تقسیم ہیں لہذا اس نقطہ نظر کو قول و عمل کے ذریعے پھیلانا علماء کرام کا کام ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص علماء ہند کے لئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں رہ رہے ہندو اورعیسائی اقلیتوں کے لئے کھڑے ہوں۔
 ۱۸۔ اسلام میں خود کشی پر پابندی ہے (4:29) یہ ہر حالت میں حرام ہے۔ یہ اتنا بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنے ایک صحابی کی جنہوں نے زخم کی شدت ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی ان کی نماز جنازہ میں شرکت سے انکار کردیا جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی فوج کے جانب سے جنگ لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔
 خود کشی کو محض مسلمان جنگی تدابیر کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ دلیل دینا کہ وہ مسلمان جو بے بس ہیں اور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا ہتھیار بھی نہیں ہے وہ اپنے جسموں کو نام نہاد شہادت کےحصول کےلیے جنگی اسلحہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں یہ دلیل سراسر غلط ہے۔ یہ دلیل لغو ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں واضح ہدایت موجود ہیں جو اس دلیل کو خارج کرتے ہیں۔علماء کرام کو ضرور اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور اسلام میں اس کی اصل حیثیت کو تشہیر کرنا چاہیے۔ہندوستان میں ہمارے لئے یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ پاکستان کے دیوبندی اور وہابی مدارس میں جہاں ہمارے ہی مدرسوں کی طرح کتابیں استعمال کی جاتی ہیں، اسلامی تعلیمات حاصل کرنے والے طالبان خود کشی کو جنگ کا جائز حربہ گمان کرتے ہیں۔ظاہر ہے علماء کرام نے اپنے شاگردوں کو اس بات کی بہتر وضاحت نہیں کی کہ اسلام نے خود کشی کے ساتھ ساتھ بےگناہوں کا قتل کرنا بھی کس شدت سے حرام قرار دیا ہے۔
 مجھے امید ہے کہ علماء کو یوٹیوب چئینل پر ویڈیو بنانے اور پوڈ کاسٹ شروع کرنے سے پہلے اس بات کو واضح کر دیں گے کہ وہ کیا کہنے جا رہے ہیں۔انہیں سمجھنا چاہیئے کہ محض خوش اسلوبی سے خطاب کرنا یا صرف مذمتی بیان دینا ہمارے لیے فائدہ مند نہیں۔ وہی عام منقولات مثلا "اسلام امن کا مذہب ہے" نے معنی ومفہوم اور اپنے اثر کو یکسر کھو دیا ہے ۔ ہمارے روز مرہ کے تجربات میں اس طرح کے گھسے پٹے الفاظ لطیفہ بن چکے ہیں۔ مسلم اپنے مسلم ساتھیوں کو دورانِ نماز مسجد میں مارنے کے لئے خود کو ہی بم سے اڑا رہے ہیں، اس طرح کے واقعات کوئی شاذ نہیں ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اپنے تکفیر نظریہ کے قائل ہیں۔
تکفیریت انہیں یہ احساس دلانے کی طاقت دیتی ہے کہ وہ ان لوگوں کو موت کی سزا دے سکتے ہیں جنہیں وہ ان کے اپنے ایمان وعمل کے اظہار کے باوجود کافر سمجھتے مانتے ہیں۔ یقینا کافروں اور مشرکوں کو قتل کرنا جہاد سمجھا جاتا ہے جیسا کہ نصاب مدارس کی درسی کتابوں میں انہیں یہ پڑھایا جاتا ہے ۔
 کوئی بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی مدرسے کے اساتذہ اپنے طلباء کو اس طرح کی تعلیمات نہیں دیتے۔ لیکن اس بات کا بھی اسے اتنا ہی یقین ہو سکتا ہے کہ مذاہب کے متعلق جہاد اور قتال اور دیگر عقائد کی ایسی تعریفوں کی محض موجودگی کم از کم کچھ طلباء میں ایک بنیاد پرست ذہنیت پیدا کرتی ہے۔
یہ وہی نظریات ہیں جنہیں مختلف انداز وبیان اور شدت کے ساتھ ان دنوں داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی طرف سے آن لائن پھیلایا جاتا ہے، پاکستان اور جہادی تنظیموں کے گروہوں کی بات ہی چھوڑئیے ۔ لہذا ہمارے مسلم بچوں کو مدرسہ جانے کی ضرورت نہیں تاکہ وہ ہمارے کلاسیکی تھیولوجی میں مذکور انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر ہو سکے ۔
اچھی زندگی گزارنے والے بہت سے پیشہ ور افراد پوری دنیا میں جہادی تحریکوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ہندوستانی پیشہ ور افراد بھی داعش کے نظریہ کے بہکاوے میں آگئے تھے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ وہ علما جو تشدد اور جہادزم کے رد وابطال کی ذمہ داری لے رہے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی توجہ ان دلائل ومباحث کی مذہبی بنیادوں پر رکھیں جن کا استعمال ہمارے نوجوانوں کو برین واش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment